65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (11)

 



یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
قسط نمبر 11


(ناصرالدین مظاہری)


حضرت ناظم صاحب کو جب عہدۂ نظامت پر بٹھایا گیا اس وقت کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے۔ اگر صرف نظر کروں تو تاریخ ادھوری، اور اگر تفصیل بتاؤں تو دشمنی پوری۔ مگر خیر، کسی کا نام لئے بغیر بات کرتا ہوں اور اتنا تو شرعاً بھی اجازت ہے۔


حضرت مولانا مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ کے پاس مدرسہ کے اہم اساتذہ، شہر اور بیرونِ شہر کے متعدد لوگ آتے اور عرض کرتے کہ:

"حضرت! آپ کا سفینۂ عمر ساحلِ مراد تک پہنچنے کو ہے، ہم سب مدرسہ کو لے کر بے حد فکرمند ہیں، آپ مدرسہ کے مستقبل کے استحکام اور نظام پر غور فرمالیں۔"


چنانچہ حضرت نے مجلسِ شوریٰ میں یہ بات رکھی اور خطیبِ اسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمہ اللہ نے ایک صاحب کی حمایت میں زوردار تائید و حمایت فرمادی۔ چونکہ مولانا مجلسِ شوریٰ کے مدارالمہام تھے اس لئے ایک صاحب کو نیابتِ اہتمام کے عہدہ کے لئے چن لیا گیا۔


مگر اتفاق کی بات یہ تھی کہ وہ صاحب کسی بھی مدرسہ کے فارغ التحصیل نہیں تھے، اور مظاہرعلوم کا یہ امتیاز رہا ہے کہ اس کا ہر ناظم و مہتمم ہمیشہ دورۂ حدیث شریف کی کوئی نہ کوئی کتاب پڑھاتا رہا ہے۔ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے، بس یہ سمجھ لیجیے کہ فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین کا نائب جن صاحب کو بنایا گیا تھا وہ مظاہرعلوم کی عظیم الشان تاریخ کا کسی بھی طرح تسلسل اور کڑی بننے کے اہل ہی نہیں تھے۔


اس فیصلہ کا ری ایکشن بڑا خطرناک ہوا۔ پورا عملہ اور معزز اہلِ شہر مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ چہ می گوئیاں، مخالفتوں کا طوفان، جگہ جگہ میٹنگیں، اور خود حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ پر اس فیصلہ پر نظر ثانی کا اتنا دباؤ بڑھا کہ اس کی نظیر محدث کبیر حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری کے بعد شاید یہ پہلا واقعہ تھا۔


خیر، اس تفصیل کا مقصد یہ بتانا ہے کہ حضرت مولانا اطہر حسین رحمہ اللہ اور خود حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ مجلسِ شوریٰ کے فیصلہ کے مؤید تھے اور نظر ثانی کی درخواست کرنے والوں کے خلاف تھے۔ قابل ذکر ہے کہ نظر ثانی کی مانگ کرنے والے سبھی حضرات حضرت مولانا محمد سعیدی کو نائب ناظم بنانے کے حق میں تھے۔ دستخط مہم چلی اور اکثریت نے مولانا محمد سعیدی صاحب کے حق میں دستخط کئے۔


بہرحال پھر ایک ہنگامی شوری بلائی گئی۔ مگر اس بار یہ شوری مظاہرعلوم وقف میں نہیں بلکہ فلاح دارین بلاسپور حضرت مولانا ممشاد قاسمی مدظلہ کے مدرسہ میں منعقد ہوئی۔ اور اتفاقِ رائے سے پہلے فیصلہ پر نظر ثانی کی گئی، اور نفاذ سے پہلے ہی فیصلۂ اول کو رد کرکے دوسرا فیصلہ کیا گیا اور حضرت مولانا محمد سعیدی کو نائب ناظم بنایا گیا۔


عملہ اور اہلِ شہر نے اس فیصلہ پر زبردست خوشیاں منائیں، لیکن صرف ایک شخص تھا جس کو بالکل خوشی نہیں تھی اور وہ خود حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ تھے، کیونکہ آپ کبھی عہدہ کے طالب نہیں رہے، نہ عہدہ کی خواہش کی، نہ عہدے کی لائن میں کھڑے ہوئے۔ اسی لئے آپ نے اظہارِ ناراضی بھی کیا۔


بہرحال اگر اس کی تفصیل جاننی اور پڑھنی چاہیں تو ماہنامہ آئینۂ مظاہرعلوم سہارنپور کا "فقیہ الاسلام نمبر" مطالعہ فرمائیں، وہاں ہم نے دستخط شدہ پوری درخواست ہی مضمون کے ساتھ چھاپ دی ہے۔


(جاری ہے)


(8/ربیع اول 1447)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے