65a854e0fbfe1600199c5c82

مفتی رفیع عثمانی صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ کا نمازِ جنازہ اور عوام کا اعتراض !

 

مفتی رفیع عثمانی صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ کی

 نمازِ جنازہ اور عوام کا اعتراض !

•••••••••••••••••••••••

تمام مسلمان عوام ہوں یا علماء دنیا میں سب برابر ہیں، اللہ تعالیٰ کے ہاں کس کا مرتبہ اونچا ہے یہ آخرت میں معلوم ہوگا۔ البتہ عوام کو اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ علماء ان سے علمی اعتبار سے برتری رکھتے ہیں، اس لیے اعتراض کے بجائے استفسار کرنے کو فوقیت دینی چاہئے۔ 

جب سے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا یہ ٹویٹ شائع ہوا ہے کہ بروز اتوار 9 حضرت مولانا مفتی رفیع عثمانی صاحب قدس سرہ کا نماز جنازہ ہوگا، تو عوام نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ایک سطحی سمجھ کے ساتھ عصر حاضر کے ایک مایہ ناز فقیہ پر چڑھ دوڑے کہ : ہمیں تو کہتے ہیں جلدی جنازہ کرو اور خود دو دن کے بعد جنازہ کررہے ہیں ! ۔

تو خوب سمجھ لیجئے کہ جنازے میں جلدی کرنا  مسنون اور مستحب ہے اور اگر میت میں تغیر ہورہا ہو (نعش پھول رہی ہو یا پھٹ رہی ہو یہ بیماری کی وجہ سے رنگت خراب ہورہی ہو) تو واجب ہے، کیونکہ اس میں میت کی بےحرمتی کا پہلو ہے، اور بلاوجہ جنازے میں تاخیر کرنا خلاف سنت اور مکروہ ہے۔ البتہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے نزدیک اگر ولی موجود نہ ہو اور اس کو وفات کی خبر پہنچ جائے، نیز اس کا عنقریب پہنچنا بھی یقینی ہو، تو جنازے کی تاخیر میں حرج نہیں۔

مولانا زبیر اشرف عثمانی صاحب دامت برکاتہم اس وقت برطانیہ کے شہر لندن میں تھے جب ان کو اس سانحہ کی خبر موصول ہوئی، لہٰذا ان کی آمد متوقع ہونے کی وجہ سے جنازہ موخر کردیا گیا۔ لوگوں سے گزارش ہے کہ افراتفری سے گریز کریں اور حسب توفیق مفتی رفیع عثمانی صاحب قدس سرہ کے لیے ایصال ثواب کرلیں۔ 

و اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب


عوام کے اطمینان کے لیے چند حوالہ جات بمعہ ترجمہ نقل کردیئے ہیں۔ ملاحظہ فرما سکتے ہیں. 


علامہ مناوی ؒنے لکھا ہے:


فاذا حضرت للمصلّیٰ لا تؤخّر لزیادۃ المصلّی ولا غیرہ للأمر بالاسراع بھا، نعم ینبغی انتظار الولی إن لم یخف تغیّرہ.(فیض القدیرشرح الجامع الصغیر،۳؍۴۰۹)


“جنازہ قبرستان پہنچ جائے تو نمازیوں کی تعداد میں اضافہ کے مقصد سے نمازِ جنازہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ جنازہ کو تدفین کے لیے جلدی لے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہاں، ولی کا انتظار کر لینا مناسب ہے، اگر نعش میں تغیر پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو۔”


شافعی فقیہ علامہ رملیؒ نے لکھا ہے:


و لا بأس بانتظار الولی اذا رجی حضورہ عن قربٍ و أمن من التغیّر(نھایۃ المنہاج)


"ولی کا انتظار کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر امید ہو کہ وہ جلد آجائے گا اور نعش تغیر سے محفوظ رہے".


اور حنبلی فقیہ شیخ نجم الدین الحرانیؒ نے لکھا ہے:


"و یجوز التأنّی قدر ما یجتمع لہ الناس من أقاربه و أصحابه و غیرھم، ما لم یشقّ علیھم أو یخف علیه الفساد" (الرعایۃ الکبریٰ)


“تدفین میں اتنی دیر تاخیر کرنی جائز ہے کہ میت کے اعزّا و اقربا، دوست احباب اور دیگر لوگ اکٹھا ہوجائیں، اگر انھیں زحمت نہ ہو اور نعش میں فساد پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو۔”


✍️ محمد فائق

(فاضل و متخصص جامعہ دارالعلوم کراچی)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے