یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط 38)
ناصرالدین مظاہری
مظاہرعلوم وقف سہارنپور کی تاریخ دراصل ان گرانقدر اکابر کی تاریخ ہے جنہوں نے اپنی علمی بصیرت، تدریسی محنت، روحانی تربیت اور انتظامی صلاحیتوں سے اس ادارہ کو روشن کیا۔ ان شخصیات میں ہر ایک اپنی مثال آپ تھی:
حضرت مولانا محمد قاسم سہارنپوریؒ
حضرت بابو محمد عبداللہ سہارنپوریؒ
حضرت مولانا انعام الرحمن تھانویؒ
حضرت مولانا اطہر حسین اجراڑویؒ
حضرت مولانا مفتی محمد امین بستویؒ
علامہ محمد عثمان غنی بیگوسرائےؒ
حضرت مولانا سید وقار علی بجنوریؒ
حضرت مولانا رئیس الدین بجنوریؒ
حضرت مولانا قاری محمد ادریس نسیمیؒ
حضرت مولانا محمد طہ مظفرپوریؒ
حضرت مولانا محمد الطاف حسین مظاہریؒ
حضرت مولانا محمد ارشاد مظاہریؒ
حضرت مولانا نثار احمد مظاہری سہارنپوریؒ
حضرت مولانا محمد یعقوب سہارنپوریؒ
یہ سب حضرات اپنے اپنے وقت کے محدث، مفسر، عظیم استاذ، مربی، ماہر فن اور بہترین منتظم تھے۔ لیکن وقت موعود پر سب ایک ایک کرکے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے اور مدرسہ ان کے وجودِ مسعود سے محروم ہوا۔
ناقابلِ تلافی خسارہ:
حضرت مولانا محمد سعیدیؒ کے لیے یہ ایک شدید صدمے کا وقت تھا۔ وہ ادارے کے منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ دل بزرگ بھی تھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک کر کے وہ شخصیات اٹھ گئیں جو کبھی ادارے کی رونق اور عزت کا سرمایہ تھیں۔
حضرت علامہ محمد عثمان غنیؒ مسندِ حدیث کے درّ شاہوار تھے، اور حضرت رئیس الدین بجنوریؒ حدیث شریف کے بلند پایہ استاذ بلکہ محدث تھے۔ ہر شخصیت اپنی انفرادیت رکھتی تھی، لیکن افسوس یہ کہ ان میں سے کسی نے اپنی زندگی میں اپنی مسند کے لیے ایسے شاگرد اور جانشین تیار نہ کیے جو ان کے حقیقی جانشین کہلائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر رخصت ہونے والے کے بعد ایک خلا ایسا پیدا ہوا جس کی تلافی ممکن نہ رہی۔
جیسا کہ کہا گیا:
"مرغِ مسلم کی جگہ کٹرا و سبزی ملنے لگی۔"
یعنی وہ مسندیں جو کبھی عظیم اہلِ علم سے منور تھیں، آج صرف ان کی یادوں اور باتوں سے آباد رہ گئیں۔
اکابر کی قربانیاں:
حضرت مولانا محمد الطاف حسینؒ اور حضرت مولانا محمد ارشاد مظاہریؒ کی مثال ہی لے لیجیے۔ یہ دونوں حضرات اتنا کام کرتے تھے کہ آج دو تین افراد بھی مل کر اس قدر ذمہ داریاں پوری نہیں کرپاتے۔ ان کے کام کے ساتھ ساتھ اکابر کا جو اعتماد ان پر تھا، وہ اعتماد بھی کسی اور پر آسانی سے نہ مل سکا۔
نئے اساتذہ کی تلاش:
اکابر کی یکے بعد دیگرے رخصتی نے ایک تشویش کی لہر دوڑا دی۔ ہر سنجیدہ طبقہ کے چہرے پر سراسیمگی صاف عیاں تھی۔ ایسے وقت میں حضرت ناظم صاحبؒ نے مجھے بلایا اور ارشاد فرمایا:
"مفتی شکیل احمد سیتاپوری سے بات کیجیے، ادارہ کو ہر حال میں لائق و فائق اساتذہ کی ضرورت ہے۔ دورۂ حدیث شریف بالکل خالی ہوگیا ہے۔"
چنانچہ میں نے مفتی شکیل احمد سیتاپوری صاحب سے بات کی، لیکن انہوں نے معذرت کردی۔ اس کے بعد حضرت ناظم صاحبؒ خود اکیلے لکھنؤ پہنچے مگر وہ بھی آمادہ نہ ہوئے۔ بالآخر چند بزرگ حضرات کی خدمات حاصل ہوئیں:
حضرت مولانا محمد اسلام الحق اسعدی مظاہری مدظلہ
حضرت مولانا مفتی کوثر علی سبحانی مدظلہ
حضرت مولانا محمد زکریا کیرانوی مدظلہ
حضرت مولانا رفیع الزماں بجنوری مدظلہ
ان میں سے اول الذکر دو حضرات آج بھی دورۂ حدیث کے ممتاز اساتذہ ہیں، البتہ بعض کا قیام مختصر مدت کے لیے ہی رہا اور وہ آگے بڑھ گئے۔
حضرت ناظم صاحب کی کیفیت:
یہ سب حالات دیکھ کر حضرت مولانا محمد سعیدیؒ کے دل پر جو بیتی، وہ الفاظ میں بیان سے باہر ہے۔ بظاہر وہ مضبوط اور باوقار تھے لیکن دل ہی دل میں اپنے اکابر کی رخصتی اور ادارہ کے خلا پر اشکبار رہتے تھے۔ ان کی راتیں فکرِ مظاہر پر گزرتیں، اور دن مدرسہ کی خدمت میں۔
غم و اندوہ کے ان لمحوں میں بھی حضرت نے ہمت نہیں ہاری، بلکہ صبر، استقامت اور عزم کے ساتھ ادارہ کو سنبھالنے کی مسلسل کوشش جاری رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف ناظم کی حیثیت سے بلکہ ایک سرپرست، مصلح اور رہبر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
(جاری ہے )
(دس ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس)

0 تبصرے