65a854e0fbfe1600199c5c82

وجودِ باری مباحثہ: جہاں میں اہلِ ایماں مانندِ خورشید جیتے ہیں


 وجودِ باری مباحثہ: جہاں میں اہلِ ایماں مانندِ خورشید جیتے ہیں 


از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری 

29 جمادی الاخری 1447ھ 20 دسمبر 2025ء 


آج کا مباحثہ خدا کے وجود پر تھا، جس میں تمام مذاہب فریق ہیں؛ لیکن خاص جب عام کی نمائندگی کرتا ہے تو بول بالا خاص ہی کا ہوتا ہے، مفتی شمائل صاحب ادیان کے ترجمان ضرور تھے؛ مگر سرخروئی اسلام کے نام جائے گی؛ کیوں کہ یہ فتح اسلام کے پیرہن میں ظاہر ہوئی ہے۔


ایک ایسے وقت اسلام کی قوت رونما ہوئی، جب یہاں اسلام کو یومیہ بنیاد پر دیوار سے لگایا جا رہا ہے، ہر سو "کہ اکبر نام لیتا ہے اسلام کا اس زمانے میں" والا منظر ہے، مسلم دشمنی کے سب سے بڑے فریق یعنی میڈیا میں اسلام کے ہاتھوں خدا کی ترجمانی وجودِ خدا کی ایک نشانی سے کم نہیں تھی۔


بی جے پی دور میں اسلام کی مثبت رسائی پر دروازے بند ہیں، قطعی اور بالکلیہ، اس پسِ منظر میں مفتی ندوی صاحب سینے پر مونگ دل گئے، یہ سچ کی طاقت ہے؛ کیوں کہ طاقت کا ہر نقش فی زمانہ ہمارے خلاف ہے، خدا کی وسیع زمین تنگ کر دی گئی ہے، بہ ایں وآں اگر ہمارا نقارہ بج اٹھا تو اس صداقت کا جادو ہے جو اسلام میں ان بلٹ، ان بورن، داخلی، ذاتی اور پیدائشی ہے۔


میں آج کے پروگرام پر کچھ لکھنے کا عازم نہیں تھا، ذہن حضرت پیر صاحب میں مصروف تھا، آج بھی ایک قسط لکھی، ادھر مباحثے پر صبح سے اتنا کہہ دیا گیا ہے کہ مزید کہنا بوریت لگا؛ لیکن لمحہ اتنا بڑا ہے کہ قلم بہاؤ کے تابع ہو گیا، نیز ایسی آوازیں بھی تعاقب میں ہیں کہ: "کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں آج غالب غزل سرا نہ ہوا"۔


فتح صرف اسلام کی نہیں؛ لیکن اسلحہ اسلامی استعمال ہوا، اس لیے اسلامیانِ ہند جشن میں ڈوبے ہیں، ماضی قریب میں یہ سماں یاد نہیں، اس میں اس جبر کا دخل ہے جو بی جے پی نے ہم پر عائد کیا ہوا ہے، ایسے میں چھوٹی خوشی بھی بڑی ہوتی ہے، پھر یہ تو بڑی سے بڑی خوشی ہے۔


میں سورۂ نجم کے نصف آخر میں کھو گیا، جہاں وہ ہنسانے اور رلانے کی بات کرتے ہیں، وہ آیات کمال ہیں، جب وہ کہتے ہیں: وَأَنَّهُ هُوَ رَبُّ الشِّعْرَىٰ تو سنسنی دوڑ جاتی ہے، ان آیات نے خدا کے وجود، قدرت اور وحدانیت کے بیان کی تان توڑ دی ہے اور اضحک وابکی میں سے ایک رنگ نے آج اس خدا کا ماحول بنا دیا ہے، جس کا وجود زیر بحث تھا۔


بندے نے پورا مباحثہ راست دیکھا، مفتی صاحب کے چینل کا لنک فعال نہیں ہوا تو للن ٹاپ پر گیا، ایک سکنڈ مس نہیں کی، دخل در معقولات والی کالز کاٹی گئیں، میرے نزدیک وہ از اول تا آخر حاوی رہے، بس غزہ جذباتی گیند پر وہ قدرے مس فائر یا بیک فائر تھے، یہاں جاوید صاحب کا فرار نوٹ ہوتا، پھر مفتی صاحب صاف کہتے کہ موضوع نفس وجود ہے نہ کہ صفات۔


صفات پر گفتگو ہوگی تو اسلام کی اینٹری ناگزیر ہے، یہاں معاملہ خاص ہو گیا، اب مطلق خدا نہیں ہمارے خدا کی بات ہو رہی ہے، قرآن بیچ میں آئے گا، جو سورۂ ملک میں کہتا ہے کہ زندگی اور موت کی تخلیق امتحان کے لیے ہے، غزہ میں بروقت مداخلت ایگریمنٹ کے خلاف جاتی، انھوں نے ابلیس کو زبان دی ہے کہ لیول پلئینگ فیلڈ ملے گا۔


عام حالات میں کھلی مداخلت نہیں کرتے؛ مگر پردہ رکھ کر اپنوں کی مدد کرتے ہیں، یہ دعا کی معنویت ہے، جس پر جاوید صاحب سوال اٹھا رہے تھے، وہ دنیا مشیت سے چلاتے ہیں، مرضی مسلط نہیں کرتے، غزہ کے مظلوم بچے مشیت ضرور ہیں؛ مگر مرضی ہر گز نہیں، غزہ میں جاوید صاحب کا، ہمارا اور پوری دنیا کا وہی امتحان ہوا جس کا ذکر سورۂ ملک میں ہے، جواب کے لیے کمر کس لیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے