65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ (39) قرطاس وقلم کے میدان میں

 

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ

(قرطاس و قلم کے میدان میں)


(قسط 39)

ناصرالدین مظاہری



بزم اطہر:

میری معلومات کے مطابق آپ کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے والدِ ماجد حضرت مولانا اطہر حسینؒ کے ملفوظات "بزمِ اطہر" کے نام سے مرتب کیے اور اپنے مکتبہ سعیدیہ سہارنپور سے شائع کیے۔



ملفوظات فقیہ الاسلام:


دوسرا اور اس سے بھی زیادہ اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے والدِ ماجد کے تعاون سے فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ کے "ملفوظات فقیہ الاسلام" کو نہایت عرق ریزی، بصیرت، محنت، جانکاہی اور ورق گردانی کے ساتھ مدلل کیا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس وقت تک اردو میں کسی کے ملفوظات کو اس طرح مدلل کیا گیا ہو۔ یہ ملفوظات حضرت مولانا مفتی مہربان علی شاہ بڑوتویؒ نے شائع فرمائے تھے۔



گیارہ عورتوں کی کہانی:


تیسری قلمی کاوش آپ کی حدیثِ "ام زرع" کی تشریح و تفصیل ہے جسے آپ نے "گیارہ عورتوں کی کہانی ان کی زبانی" کے نام سے مرتب کرکے شائع کیا، اور یوں مفت میں ایک علم کو امت کے لیے ہدیہ بنا دیا۔


مختلف مقامات و مضامین:


ماہنامہ آئینہ مظاہر علوم میں آپ نے قسط وار مضمون "اسمِ اعظم" پر لکھا جو بڑا مقبول ہوا۔ بعد میں لوگوں نے اس کی فوٹو کاپیاں بھی طلب کیں۔ اسی رسالہ میں آپ کا ایک اور مضمون "ملفوظات کی تحقیق" کے عنوان سے شائع ہوا تھا، جو بعد میں ملفوظاتِ فقیہ الاسلام کے مقدمہ میں بھی شامل کیا گیا۔

ماہنامہ آئینہ مظاہر علوم میں آپ کے متعدد مضامین اب بھی تلاش کرنے پر مل سکتے ہیں، اور ان کی کتابی شکل میں اشاعت کی جانی چاہیے۔


اسی طرح آپ نے "حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور ان کا سلوک و احسان" کے عنوان پر تکیہ رائے بریلی کے سیمینار کے لیے ایک مقالہ مرتب فرمایا اور وہاں جاکر خود پڑھ کر بھی سنایا۔ میں اس سفر میں آپ کے ساتھ تھا۔ میرے خیال میں یہ سیمینار 2007ء میں ہوا تھا جس کی صدارت مولانا محمد عبداللہ حسنیؒ نے کی تھی۔


وقتاً فوقتاً آپ کے بہت سے مضامین مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوئے، بالخصوص راشٹریہ سہارا نئی دہلی اور انقلاب نئی دہلی میں۔


اسلوب نگارش :


آپ برجستہ، قلم برداشتہ، باضابطہ اور رواں دواں لکھتے تھے۔ آپ کے اسلوب میں عربی و فارسی آمیز تعبیرات پائی جاتی تھیں، جملے بھاری ہوتے تھے، مترادفات کا استعمال کم اور انتخابِ الفاظ منفرد ہوتا تھا۔ دفتر اہتمام کی طرف سے سیکڑوں لوگوں کے انتقال پر مدرسہ کی جانب سے جاری ہونے والے تعزیتی خطوط ایسے مضامین اور تعبیرات پر مشتمل ہوتے کہ قاری عش عش کر اٹھتا۔


مکتوبات :


مدرسہ کی طرف سے جاری ہونے والے خطوط سے آپ کی لیاقت، صلاحیت اور منفرد اسلوب کا اندازہ ہوتا ہے۔ بالخصوص لاک ڈاؤن کے دوران جاری شدہ تعزیتی خطوط نہایت دلنشین ہیں۔ اس زمانے میں بازار بند تھے، مگر جس نے بھی موبائل کے ذریعے ان خطوط کو ڈیزائن کرکے وائرل کیا، وہ شکریے کا مستحق ہے۔



رجسٹروں میں علوم و مضامین:


کئی اہم مقالہ جات، اخباری بیانات، رجسٹر اطلاعات و رجسٹر ہدایات میں پورے صفحہ کی تحریریں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ آپ کے اندر ایک مضمون نگار چھپا بیٹھا تھا، جسے سامنے لانے کی ضرورت تھی۔


جب لکھتے تھے:


جب آپ کی طبیعت میں نشاط ہوتا اور آپ خود نشیط ہوتے تو مضمون میں خوب آورد ہوتی۔ مجھے دیکھ کر مسکراتے اور فرماتے:

"مفتی ناصر! بڑی مشکل سے لکھا گیا ہے، تم تو مضمون نگار ہو، میرے اس مضمون کو پڑھ لو اور ناقدانہ نظر سے دیکھ لو تاکہ اصلاح ہوسکے۔"


اور جب نشاط نہ ہوتا تو کئی کئی دن معاملہ ٹلتا رہتا، یہاں تک کہ مجبورا مجھے بلا کر حکم دے دیتے۔


مفتی محمد راشد ندوی کو مقاماتِ حریری پڑھانے کے لیے جو ترجمہ آپ نے راتوں رات لکھ کر دیا تھا، وہ بھی آپ کی بہترین ادبی قلمی کاوش ہے۔


(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے