یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ
(قسط 48)
حضرت مولانا محمد سعیدیؒ کے اساتذہ اور سلسلۂ سلوک و احسان کے بزرگان
آپ کا خانوادہ بقول شاعر "ایں خانہ ہمہ آفتاب است" کا مصداق تھا۔ نانہال و ددھیال، دونوں جانب علم و فضل کے چشمے رواں تھے۔
آپ کے نانا جان حکیم عبدالاوّلؒ (تخلص: راسخ) دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور اپنے زمانے کے معروف حکیم تھے۔
آپ کی والدہ ماجدہ، جو خاندان میں "بی بی" کے لقب سے مشہور تھیں، قرآن کریم، اردو اور دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ خاتون تھیں۔ اپنے والد کے کئی اوراد و معمولات اور طبی نسخہ جات سے بھی بخوبی واقف تھیں۔ انہی کے بارے میں میں نے ایک موقع پر لکھا تھا کہ
> "آپ عورتوں کی مفتی مظفر تھیں۔"
آپ کے والدِ ماجد حضرت مولانا اطہر حسینؒ اپنے وقت کے شیخ الادب تھے، جبکہ آپ کے تایا حضرت مفتی مظفر حسینؒ فقیہ الاسلام کہلاتے تھے۔ آپ کی تائی صاحبہ بھی پڑھی لکھی خاتون تھیں۔
آپ کی بڑی ہمشیرہ مسعودہ (مولانا محمد یعقوب بلند شہری کی اہلیہ ہیں) بھی قرآن و دینیات کی تعلیم یافتہ ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ناظم صاحبؒ کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا آغاز اسی نورانی اور روحانی ماحول میں ہوا۔
ابتدائی طور پر مظاہر علوم کے مکتبِ خصوصی میں بٹھائے گئے، جہاں اساتذہ و ملازمین کے بچوں کو حافظ شریف احمد صاحب رحمہ اللہ تعلیم دیتے تھے۔ انہی کے زیرِ تربیت آپ نے حفظِ قرآن کریم مکمل فرمایا۔
اوّل مرحلہ: ابتدائی و خاندانی تعلیم
استاد: حضرت مولانا اطہر حسینؒ (والدِ ماجد)
ابتدائی عربی کتابیں اور بنیادی علمی تربیت والدِ محترم سے حاصل کی۔ ان ہی کی نگرانی میں علمی بنیاد کی تعمیر ہوئی۔
دوم مرحلہ: مظاہر علوم (وقف) سہارنپور
ابتدائی درجات کی تکمیل کے بعد آپ نے مظاہر علوم میں باقاعدہ داخلہ لیا۔ درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے دورۂ حدیث شریف تک پہنچے۔
دورۂ حدیث کے اساتذہ
1. حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ
(بخاری شریف کا ابتدائی حصہ اور صحیح مسلم کا جزوی حصہ — کتاب الصلوٰۃ تک)
2. فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ
(بخاری شریف کا باقی حصہ، مسلم شریف کا بڑا حصہ، ترمذی مع شمائل، ابن ماجہ، موطا امام مالکؒ، موطا امام محمدؒ، طحاوی شریف، ابوداؤد اور نسائی کا بیشتر حصہ۔
فتاویٰ نویسی میں عملی تربیت بھی انہی سے حاصل کی۔)
3. حضرت علامہ رفیق احمد بھینسانویؒ
(بخاری شریف جلد ثانی انہی سے پڑھی۔)
4. حضرت مولانا محمد عاقل سہارنپوریؒ
(ابوداؤد اور نسائی کا ابتدائی حصہ انہی سے پڑھا۔)
سوم مرحلہ: دارالعلوم دیوبند
اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا، جہاں جلیل القدر اکابر سے فیض اٹھایا:
1. حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ — (حدیث کی اہم کتب؛ بلا واسطہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے شاگرد)
2. حضرت مولانا محمد نعیم دیوبندیؒ
3. حضرت مولانا خورشید عالم قاسمیؒ
4. حضرت مولانا جمیل احمد سکروڈویؒ
5. حضرت مولانا محمد اسلام قاسمیؒ
ان تمام بزرگوں سے مختلف کتبِ حدیث کی تکمیل فرمائی۔
چہارم مرحلہ: اجازت و اسنادِ حدیث
تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ نے متعدد اجلۂ علما و محدثین سے سند و اجازتِ حدیث حاصل فرمائی:
1. فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ
2. فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ
3. شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ
4. حضرت مولانا سید محمد عاقل سہارنپوریؒ
5. حضرت مولانا سید محمد سلمان سہارنپوریؒ
6. حضرت مولانا محمد زید فاروقی دہلویؒ
(جن کی سند بارہ واسطوں سے حضرت امام بخاریؒ تک پہنچتی ہے۔)
تربیتی و روحانی مشائخ
1. محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحقؒ ہردوئی
حضرت سعیدیؒ نے سب سے پہلے انہی سے بیعت کی۔
اصلاحِ باطن، ذکر و شغل اور سلوکِ روحانی کی ابتدائی منازل انہی کی نگرانی میں طے کیں۔
2. فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ
(ناظم و شیخ الحدیث مظاہر علوم وقف سہارنپور)
یہی آپ کے شیخِ بیعت و خلافت تھے۔
یکم شعبان 1415ھ کو باقاعدہ اجازت و خلافت سے نوازا۔
علمی و روحانی دونوں پہلوؤں میں ان سے گہرا تعلق رہا۔
ان کے وصال (28 رمضان 1424ھ) کے بعد حضرت سعیدیؒ مظاہر علوم کے ناظم و متولی منتخب ہوئے — جو دراصل اپنے شیخ کی خلافتِ ظاہری کی توثیق تھی۔
3. حضرت مولانا اطہر حسینؒ (والدِ ماجد)
علمی و روحانی دونوں حیثیتوں سے آپ کے اولین مربی۔
بیٹے کی علمی تربیت کے ساتھ ساتھ تزکیۂ باطن پر بھی خاص توجہ دی،
بعد میں خلافت کی خلعت بھی عطا فرمائی۔
4. حضرت حافظ ظفر احمد سہارنپوریؒ
روحانی تربیت اور اجازتِ خلافت سے نوازا۔
سلسلۂ مظاہری و تھانوی کے معتبر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔
5. حضرت مولانا شاہ عبداللطیف نلہیڑویؒ
حضرت سعیدیؒ کے مشائخ میں سے ایک جلیل القدر بزرگ۔
انھوں نے بھی خلعتِ خلافت عطا فرمائی اور نسبتِ تھانویہ کے فیوض انہی سے حاصل کیے۔
6. حضرت مولانا محمد قمر الزماں الہ آبادی مدظلہ
مظاہر علوم وقف سہارنپور میں ایک مجمعِ عام میں آپ کو اجازتِ بیعت و خلافت عطا فرمائی۔
6۔حضرت مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی مدظلہ نے بھی بالکل قریب میں اجازت بیعت و خلافت سے نوازا تھا۔
7.حضرت مولانا شیخ محمد یونس جونپوری رحمہ اللہ نے بھی آپ کو اجازت بیعت عنایت فرمائی تھی مگر اس اجازت کا پتہ دونوں کے انتقال کے بعد چل سکا۔
نوٹ:
آپ نے مظاہرعلوم میں دورۂ حدیث شریف کے علاوہ درجات کی کون سی کتاب کا سے پڑھی اس کی تحقیق جاری ہے۔ ابھی کئی دوسرے اساتذہ کے نام بھی کتابوں کے تحت آسکتے ہیں۔
(جاری ہے)

0 تبصرے