یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ
(قسط 49)
✍️ ناصرالدین مظاہری
حضرت مولانا محمد سعیدیؒ کے اندر حرص و لالچ برائے نام بھی نہ تھا۔ اس کے بے شمار واقعات بیان کیے جا سکتے ہیں، مگر یہاں صرف ایک واقعہ لکھ کر آگے بڑھتا ہوں۔
نظامت کی مسند پر بیٹھے چند ہی سال ہوئے تھے کہ ایک دن دیوالی کے موقع پر خدا جانے کہاں سے ایک پٹاخہ اڑتا ہوا فضا میں پرواز کرتا ہوا دارالافتاء کے متصل زینوں پر موجود قدیم کاغذات کے ڈھیر پر جا گرا، اور اچانک بھیانک آگ لگ گئی۔ یہ کاغذات کوئی اہم ریکارڈ نہیں تھے، بلکہ تمام دفاتر کا غیر ضروری تحریری ذخیرہ تھا، جو نہ جانے کتنے زمانے سے جمع تھا۔ آگ اتنی بھڑکی کہ حکومت کو فائر بریگیڈ کی گاڑی بھیجنی پڑی، تب جا کر آگ پر قابو پایا جا سکا۔
حکومت کے افراد ڈی ایم صاحب کی طرف سے آئے اور پیش کش کی کہ آپ حکومت سے اس کا ہرجانہ لیجیے۔ نمائندوں کا کہنا تھا کہ ڈی ایم صاحب آٹھ دس لاکھ روپے تک آرام سے دے دیں گے، مگر ناظم صاحبؒ نے یہ رقم شکریے کے ساتھ لینے سے انکار کر دیا۔
یہ واقعہ رات کو پیش آیا اور صبح ہوتے ہوتے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ کسی نے کہا کہ مدرسہ کی لائبریری جل گئی، تو کسی نے کہا دارالافتاء کا ریکارڈ سوختہ ہو گیا۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ آگ صرف غیر ضروری تحریری ذخیرے تک محدود تھی، جو یا تو دفنا دیا جاتا یا دریا برد کر دیا جاتا۔
اب ضروری ہو گیا کہ ادھ جلے کاغذات کو کسی طرح ٹھکانے لگایا جائے۔ حضرت مولانا محمد ریاض الحسن مدظلہ نے رائے دی کہ انہیں کسی کاغذی کو فروخت کر دیا جائے، مگر شرط رکھی جائے کہ وہ ان کاغذات کو براہِ راست مشین میں ڈالے، تاکہ دوسرا سامان مثلاً گتہ وغیرہ بن سکے اور بے ادبی نہ ہو۔
کئی خریدار آئے، بولی لگی اور قرعہ محمد ایوب پٹنی (ضلع سہارنپور) کے نام نکلا۔ یہ کاغذات بلا مبالغہ ایک بڑے ٹرک کے برابر تھے، اور شاید ایک لاکھ سے کم میں معاملہ طے پایا۔ ایوب صاحب نے پوری گاڑی بھروائی، وزن کرایا، ناظم صاحب کو رقم دی اور ٹرک لے کر روانہ ہو گئے۔
جب یہ لوگ مظفرنگر کی فیکٹری پر پہنچے تو فیکٹری والوں نے مال دیکھتے ہی سختی سے کہا:
“یہ تو قرآن کے اوراق ہیں!”
ایوب صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی، مگر فیکٹری والوں نے کہا: “یہ مظفرنگر ہے، یہاں دو منٹ میں ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا، مسلمان میری فیکٹری جلا دیں گے۔ فوراً یہاں سے نکل جاؤ!”
ٹرک والا گاڑی بچانے کے چکر میں فوراً نکل گیا۔ ایوب بھائی بمشکل ٹرک کے پیچھے لٹک کر اندر بیٹھ سکے۔ اب اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ سامان فروخت ہو، بلکہ یہ تھا کہ ان کاغذات کو محفوظ طور پر کہاں ٹھکانے لگایا جائے۔ ایوب بھائی نے مجھے فون کیا، میں نے ناظم صاحبؒ سے بات کرائی۔ ناظم صاحبؒ نے مولانا محمد ریاض الحسن ندوی مدظلہ سے مشورہ کیا، اور طے ہوا کہ مظفرنگر کے قریب دریائے گنگا میں بہا دیا جائے۔
ایوب بھائی ٹرک لے کر دریائے گنگا تک پہنچے۔ اتارنے کا پروگرام بن ہی رہا تھا کہ قریب کی ایک مٹھ سے ایک پجاری نکل آیا۔ اس نے حالِ احوال سنا تو بولا:
“یہ قرآن کے اوراق ہیں۔ میں عربی پڑھا ہوا نہیں، مگر پہچانتا ہوں کہ یہ عربی رسم الخط ہے۔ اگر یہ گنگا میں بہا دیے گئے تو گنگا جہاں جہاں جائے گی، یہ ورق بھی وہاں وہاں جائیں گے، اور ملک بھر میں فساد پھیل جائے گا۔ فوراً یہاں سے چلے جاؤ!”
اب ایوب بھائی وہاں سے بھی نکل آئے۔ دوبارہ مشورہ ہوا۔ طے پایا کہ کاغذات ہلال پور نہر میں ڈال دیے جائیں، مگر میں نے عرض کیا کہ وہاں بھی یہی مشکلات پیش آئیں گی۔ پھر ایک رائے ہوئی کہ حاجی شاہ کمال کے قبرستان میں دفن کر دیا جائے، مگر وہ قبرستان مظاہر علوم کا نہیں تھا، اجازت لینا اور کھدائی کرانا مشکل اور مہنگا کام تھا۔
آخر حضرت مولانا محمد ریاض الحسن مدظلہ نے فرمایا کہ فی الحال دبنی والا مدرسہ احیاء العلوم میں اتار دیتے ہیں، بعد میں کوئی مناسب تدبیر کر لیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، مگر پہلے قاری زبیر احمد کریمی صاحب سے بات کر لیجیے۔ مولانا نے قاری صاحب سے بات اس انداز میں کی کہ انہیں گمان ہوا چند گٹھریاں ہوں گی۔ مگر جب پورا ٹرک پہنچا تو ان کی حالت غیر ہو گئی! خیر، سارا ذخیرہ ایک طرف اتار دیا گیا۔
ایوب صاحب جب مظاہر علوم پہنچے تو اُن کی شکل پہلے سے ہی مسکنت بھری تھی، اب مزید مغموم ہو گئی۔ روتے ہوئے بولے:
“اللہ کی رضا میں رضا ہے، وہی میرے لیے سزا ہے۔”
ناظم صاحبؒ کے حکم سے میں نے اُن سے لی ہوئی رقم واپس کر دی، مگر ٹرک اور مزدوروں کے مصارف انہیں برداشت کرنے پڑے۔
دو چار دن بعد قاری صاحب نے رابطہ کیا:
“اجی! یہ ہمیں کس مصیبت میں ڈال دیا؟ صبح شام کتوں سے بچاتے ہیں، اڑنے سے روکتے ہیں، بڑی پریشانی ہے۔ جلدی کچھ کیجیے!”
پھر مشورہ ہوا۔ میں نے عرض کیا: “میرے حوالے کر دیجیے، میں جیسے تیسے ٹھکانے لگوا دوں گا، مگر دو مزدوروں کی اجرت دینی پڑے گی۔”
چنانچہ میں نے عیدگاہ والے قبرستان کی دیوار کے نیچے مٹی ہٹوا کر انہیں دفن کرا دیا۔ کچھ ویران کنویں تھے، ان میں بھی کاغذات ڈال دیے۔ یوں آخرکار سکون کا سانس لیا۔
کچھ مدت بعد مطبخ کے پرانے رجسٹر، نگرانوں کی حاضری کا ریکارڈ اور مالیات کے غیر ضروری کاغذات نکلے، جو ایک ٹرک کے برابر تھے۔ ناظم صاحبؒ نے فرمایا:
“پٹنی والوں سے دوبارہ رابطہ کرو۔”
میں نے ایوب بھائی سے بات کی تو وہ ہنس کر بولے:
“دودھ کی جلی بلی مٹھا بھی پھونک پھونک کر پیتی ہے، میں اب اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالوں گا!”
ناظم صاحبؒ یہ بات سن کر دیر تک ہنسے اور بار بار اُن کا تاریخی ملفوظ دہراتے رہے:
“اللہ کی رضا میں رضا ہے، وہی میرے لیے سزا ہے۔”
اللہ تعالیٰ حضرت ناظم صاحبؒ کے درجات بلند فرمائے، ان کی استغنا، دیانت اور حسنِ نیت کو ہمارے لیے مشعلِ راہ بنائے۔ آمین۔
(جاری ہے)

0 تبصرے