65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (50)



 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ


(قسط 50)

(ناصرالدین مظاہری)


حضرت مولانا محمد سعیدیؒ نہایت متحمل مزاج تھے۔ صبر، ضبط اور برداشت میں ان کی مثال دی جا سکتی ہے۔ بارہا مزاج کے خلاف امور پیش آتے، مگر وہ خاموشی سے برداشت کرتے۔

ابتدائی زمانۂ نظامت میں اتنا تحمل نہیں تھا، نئے نئے جذبات کا دور تھا، مگر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ کے بار بار کے ارشادات — نرمی و شفقت اختیار کیجیے، غصہ نہ کیجیے — نے ان کے مزاج میں ایسا اثر کیا کہ رفتہ رفتہ وہ حلم و برداشت کی تصویر بن گئے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ بڑھتی عمر اور تجربات کے باعث یہ عادت پختہ ہوگئی ہو۔


بالکل ابتدائے نظامت کا واقعہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی کی شکایت کی، تو حضرت فوراً گھنٹی بجاکر متعلقہ فرد کو بلالیتے اور دونوں کو آمنے سامنے بٹھاکر فرماتے:

"ہاں! اب ان کے سامنے اپنی بات دوبارہ کہیے۔"

اس طرزِ عمل کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں نے جھوٹی شکایتیں چھوڑ دیں۔ اکثر شکایت کرنے والے خود ہی کان پکڑنے لگے۔

ناظم صاحب فرمایا کرتے تھے:

"میں کیوں اپنے دل و دماغ میں کسی کا شکوہ رکھوں؟ ہاتھوں ہاتھ معاملہ صاف کرلو، بات ختم کرو۔"


تصدیقات لینے والے حضرات مختلف مزاجوں کے آتے۔ کوئی ضد کرتا، کوئی اصرار۔ ہم جیسے معاونین کو غصہ آجاتا، مگر حضرت پر کبھی غصے کا اثر نہ ہوتا۔ نرمی سے بات کرتے، سمجھاتے اور مسکرا کر بات ختم کردیتے۔


ایک مرتبہ حج بیت اللہ کے سفر میں منیٰ میں خیمہ کے اندر قیام تھا۔ بھیڑ کے دباؤ میں ایک طرف سے دھکا لگا، آپ توازن قائم نہ رکھ سکے اور ایک شخص کے اوپر گرپڑے۔

اس شخص نے غصے میں آکر آپ کے سینے پر تین مکے رسید کیے۔ حاجی سید فیروز احمد صاحب ساتھ تھے، انہوں نے کچھ کہنا چاہا، مگر حضرت نے روک دیا اور فرمایا:

"یہ جگہ ضبط و تحمل کی ہے، انتقام کی نہیں۔"

بعد میں حاجی سید فیروز احمد دہلوی نے آپ کے سینہ کو کھول کر دیکھا تو جگہ جگہ چوٹ کے سرخ نشانات بالکل واضح تھے۔


کئی بار ایسا بھی ہوا کہ دفتر اہتمام میں لوگ زور سے بولنے لگے، آواز بلند کردی، مگر آپ نے کبھی اپنی آواز بلند نہیں کی۔

یہی تو مضبوط اعصاب اور کامل نفس کی علامت ہے کہ انسان خلافِ مزاج حالات میں خود پر قابو رکھے اور آپے سے باہر نہ ہو۔


> "لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ"

طاقتور وہ نہیں جو دوسروں کو پچھاڑ دے، بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔

(متفق علیہ)


(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے