یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ
(قسط 51)
(ناصرالدین مظاہری)
گورکھپور میں آپ کے اہلِ تعلق بہت زیادہ تھے۔ تعلق کی خشتِ اوّل حضرت مولانا عبدالجلیل مظاہری امام جامع مسجد گورکھپور بنے تھے۔ رفتہ رفتہ تعلقات وسیع تر، فزوں تر اور مضبوط تر ہوتے گئے۔ جب بھی وہاں تشریف لے جاتے تو دعاؤں، دعوتوں، ناشتوں اور ملاقاتوں کی لائن لگ جاتی۔ بلا مبالغہ ایک ایک دن میں کبھی چھ، کبھی اس سے زائد جگہوں پر جانا ہوتا۔
ہر شخص ناشتہ اور کھانے کا انتظام اس طرح کرتا کہ لگتا ہے یہ آج کا پہلا ناشتہ ہے — یعنی پرتکلف۔ لوگ طالبِ دعا بھی ہوتے، تو کبھی آپ خود دعا کراتے اور کبھی مجھے دعا کرانے کا حکم دیتے۔
میں چونکہ مزاج شناس تھا، اس لیے اپنی تقریروں میں بھی اور دعا میں بھی وقت، حالات، ضرورت اور تقاضوں کا خیال رکھتا۔ حضرت بہت خوش ہوتے اور حوصلہ افزائی فرماتے۔
دعوتیں مسلسل لائن لگائے حاضر رہتی تھیں۔ ایک دن ایک گھر سے نکل کر دوسرے گھر میں داخل ہورہے تھے۔ سامنے ہی منا بھائی کا بڑا کشادہ دسترخوان سجا ہوا تھا۔ حضرت نے مسکراتے ہوئے میرے کان میں فرمایا:
“لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے کھانے کے لیے ہی پیدا فرمایا ہے!”
میں نے جواب دیا: “گورکھپور مخربُ البطون ہے!”
حضرت خوب مسکرائے۔
میں پہلے ہی سے کھانے میں تیل سے بچنے کی کوشش کرتا تھا، پھر آپ نے بھی تیل اور چربی والے گوشت سے احتیاط شروع کردی۔ میں اپنی پلیٹ کے نیچے چمچہ وغیرہ رکھ لیتا تاکہ تیل پلیٹ کے ایک کنارے جزیرۂ انڈمان نکوبار یا سینٹینل جزیرہ کی طرح بالکل الگ تھلگ رہے۔
حضرت ناظم صاحب نے بھی تیل سے احتیاط شروع کردی اور پلیٹ کے نیچے کوئی چیز رکھ لیتے۔ پھر ہنس کر کہنے لگے:
“سہارنپور میں لکڑی کا کاروبار بہت ہوتا ہے، اپنے کسی جاننے والے کو آرڈر دو تاکہ وہ دعوت اسٹینڈ بنادے۔”
آپ پلیٹ میں پانی کا اثر نہیں چھوڑتے تھے بلکہ پیپر سے خوب صاف کرلیتے، پھر کھانے کی کوئی چیز پلیٹ میں نکالتے۔ میری عادت ہے کہ میری پلیٹ میں کوئی کچھ نہ نکالے بلکہ مجھے اختیار دے دے تاکہ حسبِ منشا و مرضی کھا سکوں۔ لیکن آپ اس معاملے میں کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے۔
لوگ محبت میں گوشت وغیرہ آپ کی پلیٹ میں نکال دیتے، تو ظاہر ہے چربی والی بوٹیاں اور زائد تیل بھی آجاتا۔ آپ وہ تیل ٹشو پیپر میں جذب کرلیتے — یہ طریقہ مجھے بہت پسند آیا۔
ایک دفعہ کسی دعوت میں داعی نے میری پلیٹ میں بکرے کا گوشت نکال دیا، روغن بھی ٹھیک ٹھاک تھا۔ میں نے کہا: “میں روغن نہیں کھاؤں گا۔”
حضرت نے میری پلیٹ اپنے سامنے کھینچ لی اور سارا روغن کھالیا!
میں نے بعد میں شکوہ کیا کہ حضرت، آپ کو بھی تو روغن سے احتیاط کرنی چاہیے۔
فرمایا: “لوگ پتہ نہیں کیا کیا کہتے ہیں۔”
میں نے کہا: “لوگوں کو تو کہنے کی عادت ہے، اب دیکھیے کتنی بار منع کیا، پھر بھی بلا ہی لیا!”
فرمایا: “جی، آنے پر طبیعت بالکل آمادہ نہیں تھی، نہ کھانے کی طلب تھی، مگر کبھی مدرسہ کی وجہ سے، کبھی حضرت مفتی (مظفر حسین) سے تعلق کی وجہ سے آنا ہی پڑتا ہے۔”
کبھی کبھی میزبان حضرات کھانے کے دوران قریب کھڑے رہتے۔ ناظم صاحب اس موقع پر کھڑے ہونے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ فرماتے تھے کہ:
“آپ دسترخوان پر چیزیں رکھ کر یا تو بیٹھ کر نگرانی کریں یا کھانے میں شریک ہوجائیں تاکہ نگرانی بھی ہوتی رہے اور احکامات بھی دیے جاسکیں۔”
اصل میں اہلِ تعلق کھلا کر ہی تعلق کو پائیدار سمجھتے ہیں۔ نہ آؤ تو شکوہ کرتے ہیں، اور آؤ تو خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ لوگ اللہ کے پاک نام اور نسبت کی وجہ سے محبت کرتے ہیں۔
اور ان شاءاللہ یہ تعلق طرفین کی بخشش کا ذریعہ بنے گا۔
(جاری ہے)
چوبیس ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری

0 تبصرے