65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (52)



 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ

(قسط 52)


(ناصرالدین مظاہری)


ناظم صاحب کو انفرادی تعلیم کا بڑا گہرا اور زبردست تجربہ حاصل تھا۔ اس سلسلے میں کچھ تو آپ نے اپنے والدِ ماجد حضرت مولانا اطہر حسینؒ سے خارج میں انفرادی طور پر پڑھ کر حاصل کیا، اور کچھ یہ کمال آپ کی اپنی خداداد بصیرت، ذوقِ مطالعہ اور تدریسی دلچسپیوں کا ثمر تھا۔

چنانچہ آپ نے اپنے کئی صاحبزادگان — محمد مرجان، محمد فرحان اور محمد سفیان سلمہم — کو اسی انداز پر تعلیم دی، اور کیا ہی عمدہ تعلیم دی!


سب سے چھوٹے فرزند محمد سفیان سعیدی کی پرورش و تربیت بھی آپ ہی کے زیرِ اہتمام ہوئی، کیونکہ سفیان کی عمر چند برس ہی کی تھی جب والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا۔ والدہ محترمہ کا وصال بالکل اچانک، چند لمحوں کے اندر ہی ہوگیا تھا۔

محمد سفیان کو آپ نے اپنے پاس رکھا، خود پڑھانا شروع کیا، اور اس انداز میں تعلیم دی کہ سات آٹھ سال کی کم سنی میں وہ نہ صرف عربی جملوں، تعبیرات اور قرآنِ کریم کے تراجم پر قادر ہوگیا بلکہ درسِ نظامی کی متعدد اہم عربی کتابوں کی نحوی و صرفی تراکیب بھی سمجھنے اور حل کرنے لگا۔


ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد عبداللہ حسنی ندوی لکھنوی تشریف لائے۔ محمد سفیان نے مختلف مقامات سے قرآن کریم کا ترجمہ سنایا تو مولانا بے حد خوش ہوئے، اور بعد میں لکھنؤ سے ناظم صاحب کو پیغام بھیجا کہ "محمد سفیان کو عام محفلوں میں زیادہ نہ سنایا کریں، نظر لگنے کا اندیشہ ہے۔"


بعد میں محمد سفیان نے مظاہر علوم وقف سہارنپور میں علیا کی کتابیں باقاعدہ داخل ہوکر پڑھیں، پھر دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی، اور دو سال تک شعبۂ تحفظِ ختمِ نبوت میں حضرت مولانا شاہ عالم گورکھپوری کے زیرِ سایہ تعلیم و تربیت پائی۔


یہ بھی لائقِ ذکر ہے کہ ناظم صاحب نے محمد سفیان کی تعلیم میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ گھر، دفتر، اور سفر — ہر جگہ ساتھ رکھتے، سبق سنتے اور پڑھاتے۔ جب سفیان دیوبند میں زیرِ تعلیم تھا تو اس نے دَورۂ حدیث کے لیے مکتبہ بشریٰ کا مکمل سیٹ مانگا۔ ناظم صاحب نے بلا تردد دلوایا، جس کی اُس وقت قیمت تقریباً چوبیس ہزار روپے تھی۔ باقی تفصیل تو خود محمد سفیان ہی بتا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے مزید ترقی دے اور اپنے والدِ محترم کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔


ماں کے انتقال کے وقت وہ اتنا کم سن تھا کہ جب سارے بچے رورہے تھے، اُسے اندازہ تک نہ تھا کہ اس کی ممتا کا سایہ اُٹھ چکا ہے۔ اب ناز و نخرے، دیکھ بھال، خوراک و پوشاک — سب کچھ والدِ ماجد کے سپرد تھا۔


ناظم صاحب کی اہلیہ، دارالعلوم دیوبند کے قدیم و معزز خاندان سے تھیں، آپ مولانا محمد معراج (خفین والے) کی صاحبزادی تھیں۔

کئی اہلِ تعلق نے آپ کو دوسری شادی کا مشورہ دیا، مگر آپ ہمیشہ ٹالتے رہے۔ ایک دن میں نے خود پوچھا کہ "آپ نکاح میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کی والدہ ماجدہ بوڑھی اور کمزور ہوچکی ہیں، وہ کب تک گھر کے کام دیکھیں گی؟"

فرمایا:


> "دوسری بیوی میری بیوی تو ہوگی، مگر میرے بچوں کی سوتیلی ماں ہی رہے گی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ انہیں اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچے گا۔ اسی لیے میں صرف بچوں کی خاطر شادی نہیں کر رہا ہوں۔"


کچھ سال بعد مفتی محمد بدران سعیدی کا نکاح کھجوری (میرٹھ) میں مولانا انوار صاحب کی صاحبزادی سے ہوا،

پھر مفتی محمد سعدان سعیدی کا نکاح دہلی کے خوریجی علاقے میں بھائی صلاح الدین مرحوم کی صاحبزادی سے ہوا،

تیسرے فرزند محمد وہبان سعیدی نے رام پور کے مولانا عزیزالنبی خان مظاہری مرحوم کے گھر میں دامادی اختیار کی،

اور جب چوتھے صاحبزادے محمد مرجان سعیدی کے لیے رشتہ تلاش جاری تھا تو مولائے کریم نے ناظم صاحب کو اپنے پاس بلا لیا۔


ناظم صاحب کی قبر ان کے والدِ ماجد حضرت مولانا اطہر حسینؒ کے پہلو میں ہے، جب کہ ان کی اہلیہ محترمہ (نائب ناظم مفتی محمد بدران سعیدی کی والدہ ماجدہ) کی قبر پیروں کی سمت والی قطار میں ہے۔

حضرت مولانا اطہر حسینؒ کے بائیں جانب فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ کی قبر ہے، اور ان کے چبوترے سے قبل بائیں طرف جس قبر پر "قبر اطہر" لکھا ہے، وہ حضرت مفتی مظفر حسینؒ کی والدہ محترمہ کی ہے۔

حضرت مفتی صاحب کے والد حضرت مفتی سعید احمد اجراڑویؒ کی قبر، حضرت مولانا محمد اسعداللہؒ والی قطار میں تیسرے نمبر پر واقع ہے۔


(جاری ہے)

( پچیس ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے