یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ
(قسط 53)
(ناصرالدین مظاہری)
آپ سمعخراشی کو ناپسند کرتے تھے۔ ایامِ تالا بندی (لاک ڈاؤن) میں ایک دن مجھے بلایا اور دریافت فرمایا کہ “کیا کیا جائے؟ تعلیم موقوف ہے، دفاتر کھلے ہیں، یہ جو اساتذہ ہیں، ان کو کیا کام سپرد کیا جائے؟”
میں نے عرض کیا: “ایک شکل یہ ہوسکتی ہے کہ مدرسہ کی ویب سائٹ بہت بڑی ہے، اس پر مواد بھی کثیر ہے مگر سب اردو میں ہے۔ اسے عربی، ہندی اور انگریزی میں منتقل کرنا بہت ضروری ہے۔ جو جس فن کا ماہر ہو، اسی کے مطابق اس سے کام لیا جائے۔”
کہنے لگے: “ترجمہ نگاری بہت مشکل فن ہے۔ مترجم کو دونوں زبانوں پر گہری گرفت ہونی چاہیے۔ اصل متن کے معنی، مفہوم اور لہجے کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ لفظی ترجمے کے بجائے معنوی وفاداری اختیار کرنا نہایت دقتطلب کام ہے۔ ثقافتی اور محاوراتی فرق کو سمجھ کر موزوں الفاظ چننا بھی اہم ہے۔ مترجم کا کام ابلاغ ہے، تشریح نہیں۔
اختصار اور وضاحت دونوں کا لحاظ رہے۔ لسانی آہنگ، زمانہ اور سیاق نہ بدلے۔ مذہبی، ادبی یا فنی متون میں اصطلاحات کی درستی سب سے مقدم ہو۔ ترجمہ محض ترجمہ نہ ہو بلکہ ترجمانی ہو — یعنی نہ مصنوعی لگے، نہ بے روح۔ نظرثانی اور تقابلی مطالعہ بھی لازمی و لابدی ہے۔
یہ کوئی چھوٹا کام نہیں۔ یہ کام مدرس نہیں، ماہر قلم کرسکتا ہے — اور ہر استاد کا ماہر قلم ہونا ممکن نہیں۔ کچھ اور بتاؤ؟”
میں نے کہا: “کتب خانے میں بھی بہت سا کام باقی ہے۔ مثلاً جو کتابیں مطبوعہ اور سہلالحصول ہیں، ان کے قدیم ترین نسخے منسوخ کرنا ضروری ہے، کیونکہ ان کے ابتدائی صفحات ضائع ہوچکے ہیں، حواشی ٹوٹ چکے ہیں، الفاظ مدہم ہوگئے ہیں، اوراق بوسیدہ اور حروف ناقابلِ قراءت ہوچکے ہیں۔
ان نسخوں کو پہلے جانچا جائے۔ اگر کسی اہم شخصیت کے قلمی حواشی ہوں تو انھیں علیحدہ محفوظ کیا جائے۔ اسی طرح اگر کوئی نسخہ نایاب ہو تو اسے بھی محفوظ رکھا جائے۔”
یہ رائے پسند آئی، اور مفتی محمد راشد ندوی، مفتی محمد سعدان سعیدی، مفتی ابوالکلام قاسمی، مفتی محمد احکام قاسمی، مولانا غیور احمد قاسمی، اور راقم الحروف ناصرالدین مظاہری پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔
اس ٹیم نے خوب محنت کی۔ بہت سے نسخے ناقابلِ استفادہ نکلے اور بہت سی کتابیں دستی حواشی سے مزین ہاتھ آئیں، جن کی فہرست بناکر الگ سے محفوظ کی گئی۔
یوں ماشاءاللہ ایک تاریخساز کارنامہ ناظم صاحب کی زیرِ سرپرستی انجام پایا — جو شاید اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
آپ چشمپوشی اور صرفِ نظر کے ساتھ خورد و کلاں کے مراتب کی رعایت بھی رکھتے تھے۔ کسی کہنہمشقی یا بزرگ استاد کو کوئی عملی کام نہیں سونپا، البتہ دو ایک اساتذہ جو بزرگ تھے، ان سے فرمایا کہ “آپ تھوڑی دیر کے لیے دفترِ اہتمام تشریف لے آیا کریں۔” ان بزرگوں کی ضیافت بھی خود فرمایا کرتے تھے۔
حضرت مولانا محمد یعقوب صدرالمدرسین تھے — انھیں صدر مدرس آپ ہی نے بنایا تھا۔
اسی طرح قاری محمد ادریس کو صدرالقراء، مفتی عبدالحسیب اعظمی کو صدر مفتی، مولانا احمد میرٹھی کو نائب ناظمِ تعلیمات، مفتی تسخیر مظاہری کو نگران مطبخ، اور راقم الحروف کو ماہنامہ آئینہ مظاہر علوم کا مدیرِ تحریر آپ ہی نے مقرر فرمایا تھا۔
مطبخ اور لبِ حوض کے بعض اہم تعمیری امور بھی اسی لاک ڈاؤن کے زمانے میں مکمل ہوئے۔
(جاری ہے)

0 تبصرے