65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (54)



 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ

(قسط 54)

(ناصرالدین مظاہری)


یوں تو آپ بزرگانِ دین کی قدر اور ان کا خوب اکرام و احترام کرتے تھے، تاہم میں نے آپ کو پچیس تیس سال میں جن بزرگوں کی عقیدت و محبت میں گرفتار دیکھا ہے، ان کا ذکرِ خیر نہ کرنا بددیانتی اور کتمانِ حقیقت سمجھتا ہوں۔


شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ


گزشتہ صفحات میں ذکر آچکا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مرعوب، متاثر اور عقیدت مند تھے، ان میں سرفہرست حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوریؒ کا نام ہے۔

حضرت کے پاس کثرت سے جاتے تھے، بلکہ ایسے وقت تشریف لے جاتے کہ فجر کی اذان یا تو ہوچکی ہوتی یا ہورہی ہوتی۔ اپنی مجالس میں ہمیشہ نہایت محبت اور احترام کے ساتھ ان کا تذکرہ کرتے تھے۔


قارئینِ کرام! ایک دلچسپ واقعہ عرض کرتا ہوں، اسے محض خوش مزاجی کے پہلو سے لیجیے۔ اگر آپ کسی کے شاگرد ہیں تو ضرور کبھی اپنے کسی استاذ کی نقل اتاری ہوگی۔ حضرت ناظم صاحب نے بھی شاید زندگی میں صرف خاص الخاص احباب کے درمیان حضرت شیخ الحدیثؒ کی نقل اتارتے، اور خوب محظوظ ہوتے۔

نقل بھی بڑی معصومانہ ہوتی — مثلاً حضرت شیخ جب سبق پڑھاتے تو کس انداز سے بولتے، وہ لہجہ، آواز، آنکھوں کی جنبش، سر کے جھکانے کا انداز — سب نقل کرتے۔ دورانِ درس محدثین کے اقوال جس انداز سے ذکر کرتے، وہی انداز دہراتے۔


ایک بار مسجدِ نبویؐ کے باہر ایک کم سن عرب بچے کے پاس وہیل چیئر دیکھی، تو اس سے بات کرنے لگے، اور کچھ ہی دیر میں اس بچے کو خوب مانوس کرلیا۔ پھر اچانک ایک نیا منظر سامنے تھا: حضرت شیخ الحدیثؒ جس طرح وہیل چیئر پر بیٹھتے تھے، ناظم صاحب نے بالکل ویسا ہی انداز اختیار کیا — وہی نشست، وہی چہرے کی کیفیت، وہی اندازِ نظر۔ سید فراز دہلوی کچھ فاصلے پر کھڑے تھے، ناظم صاحب نے عرب بچے کو اشارہ کیا، اور وہ مسکراتا ہوا ناظم صاحب کو لے کر سید فراز کے قریب پہنچا۔

دونوں ہنس پڑے — ناظم صاحب بھی، اور سید فراز بھی۔ پھر وہیل چیئر سے اتر کر فرمایا: “یہ مدنی بچہ ہے، اسے کچھ ریال ہدیہ کردو۔”


کبھی کبھی آپ فرمایا کرتے کہ: “ہم لوگ حضرت کے پاس بیٹھے ہوتے، کوئی آتا دکھائی دیتا، تو حضرت یکدم لہجہ بدل لیتے اور اس کے مناسب انداز میں گفتگو کرنے لگتے۔” پھر ناظم صاحب خود اس منظر کی نقل دہراتے اور خوب محظوظ ہوتے۔


آپ حضرت شیخ الحدیثؒ کے حسنِ کردار، حسنِ گفتار، مہارتِ حدیث، تقویٰ، تدین اور زہد کی بےحد تعریف کیا کرتے تھے۔

اگر دونوں بزرگوں کی زندگی وفا کرتی تو مجھے یقین ہے کہ اوس و خزرج کی طرح قدیم و جدید کے دیرینہ اختلافات کے باوجود کسی موقع پر ختم بخاری میں ضرور بلا لاتے۔ حضرت شیخ الحدیثؒ ان پر بےپایاں شفقت فرماتے تھے۔


حضرت مولانا عبداللطیف نلہیڑویؒ


آپ کچھ عرصہ سہارنپور کے بعض دیہات میں قرآنِ کریم پڑھاتے رہے، پھر دہلی لال کنواں والی مسجد میں مقیم ہوگئے، جہاں سے آپ نے خانقاہی نظام جاری فرمایا، اور خوب کامیابی سے چلایا۔

آپ بڑے صاحبِ کشف و کرامات بزرگ تھے۔ حضرت مولانا محمد اسعداللہ ناظم مظاہر علوم کے خلیفہ بھی تھے اور مظاہر علوم ہی سے فارغ التحصیل بھی۔ آپ حدیثِ نبوی «اتقوا فراسة المؤمن فإنه ينظر بنور الله» کے مصداق تھے — چہرے دیکھ کر فیصلے سنادیتے، اور نگاہوں سے انسان کے باطن کی کیفیت پڑھ لیتے تھے۔


ایک مرتبہ حضرت ناظم صاحبؒ کو پتھری کا عارضہ لاحق ہوا۔ الٹراساؤنڈ اور علاج کے بجائے دل نے کہا کہ حضرت نلہیڑویؒ کے پاس جانا چاہیے۔ دہلی پہنچے، اور ماجرا عرض کیا

 تو آپ نے اپنے پاس کھڑا کرلیا ، نظر ڈالی اور فرمایا پتھری تو یہ ہے ، پھر کچھ پڑھتے رہے اور پتھری سے کہتے رہے چل چل چل ، ہر حکم پر ناظم صاحب کو ایسا محسوس ہوتا کہ پتھری کی جگہ بدل رہی ہے پھر اخیر میں فرمایا کہ جاؤ پیشاب کروگے تو نکل جائے گی ، چنانچہ پیشاب کیا تو پتھری نکل پڑی۔

ناظم صاحب اپنے ساتھ بیتے حضرت کے بہت سے واقعات سنایا کرتے تھے ، حضرت مولانا عبداللطیف نلہیڑوی کی قبر پر بکثرت حاضر ہوکر فاتحہ پڑھتے ، دعاء مغفرت کرتے۔

(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے