65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (55)



 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ

(قسط 55)

(ناصرالدین مظاہری)


حضرت مولانا عبدالعزیز ظفر جنکپوریؒ


فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ کے خلیفہ و مجاز، دہلی فرینڈس کالونی کی شاہی مسجد کے امام، اور اصلاً میوات کے رہنے والے تھے۔ بڑے عجیب کمالات کے حامل بزرگ تھے، عمر تقریباً سو برس کے قریب رہی۔ اعلیٰ پایے کے شاعر بھی تھے۔ بہت سے علماء و شیوخِ حدیث ان کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔

مسجدِ رشید دارالعلوم دیوبند میں جنوبی دروازے سے داخل ہوں تو جو کتبہ نظر آتا ہے، وہ انہی کا تحریر کردہ ہے۔ عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں پر عمدہ دسترس رکھتے تھے۔ اپنی قبر کا کتبہ خود تحریر فرمایا، پتھر پر کندہ کرایا، اور وصیت کی کہ وفات کے بعد یہی لگایا جائے۔

زمانۂ صحت میں وہ مظاہر علوم کثرت سے تشریف لاتے رہتے تھے۔ حضرت مولانا محمد سعیدیؒ کو ان سے گہری عقیدت و محبت تھی اور ان کے کمالات کے معترف بھی تھے۔ناظم صاحب کے ناظم بننے پر مبارک بادی کا منظوم کلام مرتب کرکے فریم کراکے ناظم صاحب کو عنایت فرمایا تھا۔


حضرت مولانا ابرارالحق ہردوئیؒ


محی السنۃ حضرت مولانا ابرارالحق ہردوئیؒ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلیفہ تھے۔ مظاہر علوم سے درجہ بدرجہ پانچ سال تعلیم حاصل کر کے فارغ ہوئے تھے۔ ناظم صاحب کو ان سے گہری محبت و عقیدت تھی۔ آپ کے درمیان مکاتبت اور مراسلت بھی رہتی تھی۔ حضرت ہردوئیؒ سے بیعت بھی تھے اور آپ پر حضرت کی خاص شفقتیں رہتی تھیں۔


ایک عجیب واقعہ یہ ہے کہ ناظم صاحبؒ ایک بار حضرت ہردوئیؒ سے ملاقات کے لیے گئے۔ ملاقات ہوئی، حضرت نے کھانا وغیرہ کھلایا۔ اچانک اطلاع ملی کہ حضرت کی طبیعت خراب ہوگئی ہے اور معالج کے یہاں لے جایا جا رہا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد خبر پہنچی: “إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون”۔

ناظم صاحبؒ نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی اور پھر سہارنپور واپس ہوئے۔ یہ پورا واقعہ اور اس کی منظر کشی خود ناظم صاحبؒ نے اپنے ایک مضمون میں کی ہے، جو آئینہ مظاہر علوم کے "محی السنۃ نمبر" میں شامل ہے، اور پڑھنے کے لائق ہے۔


حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ


حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ سے کون واقف نہیں! تکیہ رائے بریلی میں پیدا ہوئے، ندوۃ العلماء میں تعلیم پائی، وہیں تدریس فرمائی، ندوہ کے ناظم بنے، اور بالآخر ندوہ ہی سے عالمِ بالا کو سدھار گئے۔

حضرت ناظم صاحبؒ کو حضرت مولانا سید محمد رابع حسنیؒ سے بڑی عقیدت تھی۔ کئی بار ملاقات کے لیے گئے، اور خود حضرت مولانا سید محمد رابعؒ حسنی بھی متعدد بار مظاہر علوم تشریف لائے۔


ایک مرتبہ حضرت نے مظاہر علوم میں قیام فرما تھے۔ اپنے پروگراموں کے بعد جب سہارنپور ریلوے اسٹیشن سے لکھنؤ واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو 

ناظم صاحبؒ نے مولانا احمد سعید میرٹھی کو حکم دیا کہ حضرت کے لیے توشۂ سفر (کھانا) پہنچائیں۔ چنانچہ کھانا خوبصورت برتنوں میں پیک کراکے اسٹیشن پہنچایا گیا۔ میں بھی ہمراہ تھا۔

جب یہ سامان حضرت کے حوالے کیا گیا اور عرض کیا گیا کہ "یہ توشۂ سفر حضرت مولانا محمد سعیدیؒ نے بھیجا ہے"، تو حضرت نے بہت دعائیں دیں اور بعد میں بعض مجالس میں اس کا تذکرہ بھی فرمایا۔

حضرت مولانا احسن بیگؒ

حضرت احسن بیگ عالم نہ تھے، مگر صاحبِ کمال ایسے کہ ہزاروں علماء آپ کے مرید و معتقد تھے۔ آپ دو مرتبہ پاکستان سے سہارنپور تشریف لائے اور دونوں بار مظاہر علوم وقف میں قیام فرمایا۔

یہ سلسلۂ نقشبندیہ اویسیہ کے اکابر میں سے تھے اور ذکرِ انفاس (پاسِ انفاس) کراتے تھے۔ حضرت مولانا اللہ یار خانؒ کے اجل خلفاء میں شمار ہوتے تھے۔

ناظم صاحبؒ کو حضرت بیگ صاحبؒ سے گہری عقیدت تھی، البتہ بیعت نہیں ہوئے، کیونکہ ناظم صاحبؒ اور مظاہر علوم کے تمام اکابر کا سلسلہ چشتیہ ہے۔


حضرت مولانا قمر الزماں الہ آبادی مدظلہ


زندگی کے آخری سنین میں جس ہستی سے ناظم صاحبؒ کو سب سے زیادہ عقیدت و محبت تھی، وہ حضرت مولانا قمر الزماں الہ آبادی مدظلہ تھے۔

حضرت بھی ناظم صاحبؒ پر بے پناہ شفقت فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت مظاہر علوم تشریف لائے، طلبہ و علماء کے درمیان وعظ فرمایا، اور واپس تشریف لے گئے۔ کسی نے پوچھا:

“حضرت! آپ کون سے مظاہر علوم میں گئے تھے؟”

حضرت نے برجستہ فرمایا:

“کون سے کا کیا مطلب؟ میں تو اپنے مظاہر علوم گیا تھا — جو قدیم بھی ہے اور اصل بھی!”


(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے