یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ
(قسط 57)
(ناصرالدین مظاہری)
بہت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ یہ سلسلۂ مضامین حضرت ناظم صاحبؒ کے سوانحی نقوش ہیں۔ کھٹے میٹھے اور تلخ و شیریں واقعات کا ہونا زندگی کا حصہ ہے۔ حضرت ناظم صاحب مظاہر علوم کے ناظم تھے، بڑے ادارے میں حالات بھی بڑے پیش آتے ہیں۔ اب چند تلخ و شیریں باتیں سنانے جارہا ہوں۔ میرا مقصد نیک ہے، کسی پر نقد یا تنقید ہرگز مقصود نہیں ہے۔ جو لوگ اہتمام و انتظام چلاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کس انداز سے حالات بدلتے اور پلٹتے ہیں۔
حضرت ناظم صاحب کو جب مظاہر علوم کا ناظم چنا گیا تو ظاہر ہے کہ آپ کے کئی اساتذہ آپ کے ماتحت ہوگئے۔ مدرسہ میں اصول سب کے لیے یکساں ہوتا ہے، یا دوسرے لفظوں میں کہہ لیجیے کہ:
فرشتۂ کہ وکیل است بر خزائنِ باد
چہ غم کند کہ بمیرد چراغِ پیر زنے
یعنی جو فرشتہ ہواؤں کے خزانوں پر مقرر ہے، اسے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کسی غریب بوڑھی کا چراغ بجھ جائے۔
اصل میں میرے استاذ فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ کے زمانۂ اہتمام میں حضرت کی بے انتہا شفقت اور نرمی و چشم پوشی کی وجہ سے بعض لوگ اوقاتِ مدرسہ میں تاخیر سے حاضر ہونے کے عادی ہوچکے تھے۔ حضرت کی بار بار فہمائش سے بھی ان کی عادت میں کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ حضرت تحمل مزاج تھے، برداشت کا مادہ بہت تھا۔ ان کی چشم پوشی بہتوں کے لیے نافرمانی کا باعث بن چکی تھی۔
لیکن جب حضرت مولانا محمد سعیدیؒ ناظم بنائے گئے تو اولین حکم یہ جاری کیا کہ مدرسہ اور درسگاہ میں وقت پر حاضری ہوگی، اور اصول بنا دیا کہ اگر کوئی ملازم مدرسہ میں پندرہ منٹ بعد حاضر ہوگا تو اس کی نصف یوم کی غیر حاضری لگے گی، اور اگر کوئی مدرس دس منٹ تاخیر سے درسگاہ پہنچا تو اس گھنٹے کی غیر حاضری شمار ہوکر تنخواہ کٹے گی۔ اس پر سختی کے ساتھ عمل کے لیے آپ نے مشاہدین اور کاتب الحضور مقرر کردیے، اور کاتب الحضور بھی ایسے کہ کوئی رعایت نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حضرات زیادہ پریشان ہوئے جو تاخیر کے عادی ہوچکے تھے۔ ان کی اچھی خاصی تنخواہیں وضع ہونے لگیں۔ ان میں بعض وہ حضرات بھی تھے جو ناظم صاحب کے بھی اساتذہ تھے۔ وہ بہت خفا ہوئے، ناراض ہوئے، بگڑے، کیا کیا کہا! مگر حضرت ناظم صاحب نے سب کچھ سہا، برداشت کیا۔
ایک استاذ صاحب نے درسگاہ میں ہی اپنے غصہ و ناراضی کا اظہار کیا۔ بات طلبہ کے ذریعے ناظم صاحب تک پہنچی۔ ناظم صاحب یہ باتیں سن کر ہنس پڑے اور فرمایا کہ وہ میرے استاذ ہیں، غصہ وقتی اور عارضی ہے۔ اب دھیان رکھنا، کل کیا کہتے ہیں۔
چنانچہ اگلے دن وہی استاذ ناظم صاحب کی تعریف میں رطب اللسان ہوئے اور کہا:
“مولانا محمد میرے شاگرد ہیں، وہ مدرسہ کا اہتمام چلاتے ہیں۔ اہتمام چلانا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔ رات مولانا محمد صاحب رکشہ سے میرے گھر پہنچے، آم کی ایک پیٹی پیش کی اور ماشا اللہ پانچ سو روپے بھی ہدیہ کیے۔”
بہرحال وقتی طور پر تو لوگوں نے اس کو سختی پر محمول کیا مگر اس کا فایدہ یہ ہوا کہ لوگ وقت پر حاضر ہونے لگے ، وقت سے پہلے گھر سے نکل کر مدرسہ پہنچنے لگے، بعض لوگوں کو تو دوڑ کر مدرسہ میں داخل ہوتے بھی میں نے دیکھا ہے، اس کے لئے ناظم صاحب نے گیٹ کے پاس گھڑی بھی الیکٹرک لگوائی اور یہی گھڑی معیار قرار پائی، اور پھر کیمرے بھی لگوادئے تاکہ نظم میں سہولت ہو۔
حضرت ناظم صاحب حالات اور معاملات کو ہینڈل کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ مدرسہ کے معاملات میں بڑے سخت اور ذاتی معاملات میں بڑے نرم واقع ہوئے تھے۔
چند سال پہلے مجھے درسگاہ سے بلوایا۔ میری غیر موجودگی میں ایک طالبِ علم نے شرارت میں منبر کے پاس موجود خطیب کے عصا کو اٹھا کر کھیل کود میں توڑ دیا۔ جب میں درسگاہ پہنچا تو طلبہ نے روداد بیان کی۔ مجھے بڑا غصہ آیا اور اس طالبِ علم کو ناظم صاحب کی خدمت میں لے گیا۔ پوری صورتِ حال بیان کی۔ عصا بڑا ہی قیمتی، ڈیزائن اور کام بہت عمدہ، لکڑی مہنگی اور تراش و خراش پر مشتمل تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اسے سزا ضرور ملے گی۔ ناظم صاحب کے سامنے حاجی رضوان صاحب بیٹھے تھے۔ ناظم صاحب نے عصا کے دونوں ٹکڑے منگوائے اور حاجی رضوان کے حوالے کردیے اور فرمایا: یہ آپ نے ہی بنوایا تھا، اب پھر آپ ہی مرمت کرادیجیے۔
حاجی جی بولے: حضرت، اس پر تو بہت صرفہ آیا تھا۔
فرمایا: کوئی بات نہیں، کام کرادو۔ اور اس طالبِ علم کو مخاطب کرکے فرمایا: فکر نہ کرو، جاؤ پڑھو۔
میں اس تحمل پر دنگ رہ گیا۔ واللہ! ایسا تحمل میں نے پہلی بار دیکھا کہ اس بچے کو بجائے ڈانٹنے کے مزید چمکار رہے تھے، اور وہ ظالم بھی دفترِ اہتمام میں پہنچ کر “خلوص” کے ساتھ روئے جارہا تھا۔
(جاری ہے)

0 تبصرے