یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدیؒ
(قسط 58)
(ناصرالدین مظاہری)
سفر میں حضرت نہایت منشرح اور پُرمسرت رہتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے:
“جتنے دن حرمینِ شریفین میں گزرتے ہیں، دل کو سکون اور روح کو قرار نصیب ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی اپنے ملک میں قدم رکھتا ہوں تو بے کیفی، بے کلی، اجنبیت اور کفر و شرک کے بے ہنگم شور و غل سے دل کو اذیت اور ذہن کو تکلیف ہونے لگتی ہے۔”
ایک مرتبہ صبح ساڑھے دس بجے کی ٹرین سے ہم نے سفر شروع کیا۔ ٹرین کے چلتے ہی حضرت نے فرمایا:
“مفتی ناصر! بھوک لگ رہی ہے۔”
میں نے تعجب سے عرض کیا: “اتنی صبح بھوک؟”
مسکرا کر فرمایا: “اللہ کا خوف کرو، میں نے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا!”
مجھے حیرت بھی ہوئی اور احساس بھی کہ اگر حضرت کی اہلیہ محترمہ حیات ہوتیں تو بھوک کا شکوہ کبھی زبان پر نہ آتا۔ واقعی، نیک بیوی دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے، خیرُ متاعِ الدنیا المراۃُ الصالحۃ۔
میں نے عرض کیا: “اب تو ٹرین مرادآباد سے پہلے نہیں رکے گی، البتہ ٹرین کے کینٹین سے ناشتہ کا انتظام کر لیتے ہیں۔”
چنانچہ چائے لے لی، بسکٹ اور نمکین سب کچھ میرے ساتھ تھا۔ ناشتہ کے بعد فرمانے لگے:
“اب کھانے کا کیا ہوگا؟”
میں نے مسکرا کر عرض کیا: “اللہ ہی رازق ہے، وہی رزق پہنچائے گا۔”
فرمایا: “پھر بھی کچھ تو تدبیر کرو۔”
میں نے عرض کیا: “مرادآباد میں کھانا کھلاؤں گا، ان شاء اللہ۔”
حیرت سے پوچھا: “کسی کو فون تو کیا نہیں ہے کھلاؤگے کیسے؟”
میں نے جواب دیا: “میسیج کر چکا ہوں۔”
مرادآباد پہنچے تو مولانا محمد یونس صاحب ایک وزنی تھیلے کے ساتھ پلیٹ فارم پر موجود تھے۔ کھانے کا تھیلا حوالے کیا اور ملاقات کرکے واپس چلے گئے۔
ٹرین چل پڑی۔ بھوک کا وقت تھا، کھانا کھولا تو بڑا پرتکلف کھانا نکلا — کئی اقسام کی ڈشیں۔
حضرت بہت خوش ہوئے۔ کھانا کھا لینے کے بعد فرمایا:
“کافی بچ گیا ہے، کسی اور کو دے دو۔”
میں نے عرض کیا: “سفر میں اپنا لایا ہوا کھانا کسی کو نہیں کھلانا چاہیے۔”
پوچھا: “کیوں؟”
میں نے کہا: “اگر خدانخواستہ وہ شخص بیمار ہو گیا تو تحقیق و تفتیش کے لمبے مراحل سے گزرنا آسان نہیں ہوگا۔”
حضرت نے تائید میں سر ہلایا اور مسکراتے ہوئے فرمایا:
“ضرور یہ تجربات مفتی راشد سے ملے ہوں گے۔”
نمازِ ظہر کے بعد فرمایا: “رات کا کھانا کہاں کھلاؤ گے؟”
میں نے عرض کیا: “لکھنؤ میں۔”
جب لکھنؤ پہنچے تو مولانا محمد عدنان اور کئی دوسرے احباب مرغن و لذیذ کھانوں کے ساتھ موجود تھے۔
حضرت نے کھانا تناول فرمایا، شکرِ خدا ادا کیا اور فرمایا:
“اللہ اپنے نام کی نسبت و برکت سے استحقاق سے زیادہ نواز رہا ہے۔”
پھر ہنس کر فرمایا:
“اب تو کہیں کھانا وانا نہیں ہے؟”
میں نے عرض کیا: “اگر آپ حکم دیں تو ہر اسٹیشن پر آتا رہے گا، ان شاء اللہ۔”
ہنس پڑے اور فرمایا:
“کیسے اتنی ترتیب بنا لیتے ہو؟”
الحمدللہ، حقِ سبحانہ و تقدس کا ہزار شکر ہے کہ کبھی ناظم صاحب کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی،
کبھی درست رائے دینے میں کوتاہی نہیں کی،کبھی کسی کی حق تلفی نہیں چاہی،کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا،
اور کبھی کسی کے لئے میرے دل و دماغ میں تخریب کاری یا بدنیتی نہیں آئی۔
اگر کبھی کوئی موضوع میری استعداد سے بلند ہوتا تو صاف کہہ دیتا:
“اس بارے میں مجھے علم نہیں، فلاں صاحب سے مشورہ کر لیجیے۔”
یہی دیانت حضرت کی صحبت کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔
(جاری ہے)

0 تبصرے