65a854e0fbfe1600199c5c82

مولانا امینی: ایک ادبی مطالعہ


مولانا امینی: ایک ادبی مطالعہ
🖊️ احتشام اعظمی

آنکھوں میں ہیں ایں وآں کے آنسوں 
قطرے طوفاں کی لکھ رہے ہیں تاریخ 
گورا چٹا سرخ رنگ، چندے آفتاب، چندے ماہتاب ، کتابی چہرہ، کشادہ پیشانی،سفید داڑھی، متوسط قدو قامت، حددرجہ لطیف اور نفاست پسند، شگفتہ مزاج، ظریف الطبع، مولانا کیرانوی رحمہ اللہ کے اطوار و عادات اور ان کے اصول زندگی کے سانچے اور فریم میں خود کو ڈھالے ہوے
سردی و گرمی ہر دوموسم میں ان کی خوب صورت اور دیدہ زیب شیروانی، ہاتھوں میں ایک عمدہ چھڑی، پالش زدہ چمک دارجوتے ،ان کا نستعلیقی لب و لہجہ، تکلم کی موسیقیت و سحر انگیزی، تبسم کی حلاوت اور طبیعت کی بے مثال شرافت ہر عوام و خواص کی توجہات کو اپنی طرف مبذول کرلینے پہ حددرجہ قادر تھی 

وہ اردو و عربی کے زبردست ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب طرز انشا پرداز اور تنقیدی صلاحیتوں کے حامل تھے، ان کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ فصاحت سے دھلاہوا اور ہر تعبیر بلاغت میں سجی ہوئی ہوتی تھی جس طرح خواجہ حسن نظامی، مولانا آزاد، دریابادی، قاضی عبدالغفار، شبلی؛ ایک منفرد لب و لہجہ اور طرز انشا کے مالک ؛بل کہ موجد تھے ٹھیک اسی طرح مولانا امینی اردو و عربی دونوں زبانوں میں اپنا الگ انداز، مخصوص اسلوب بیان اور حد درجہ سحر انگیز طرز انشا پردازی رکھتے تھے؛ جس کے وہ خود موجد تھے جس کی زبان انتہائی سلیس و شگفتہ اور ہر ایک کے لیے قریب الفہم ہے ، سائنس اور ٹکنالوجی کے موجودہ دور میں علمی تاریخی و صحافتی میدانوں میں علامہ شبلی کی طرح مولانا کا طرز تحریر بھی دگر ادبا کے مقابلے کہیں زیادہ قابل تقلید ہے 

اگر ہم مولانا کے اردو اسلوب نگارش پہ تنقیدی نظر ڈالیں تو یہ نظر آئے گا کہ "وہ کوہ کن کی بات" اور " پس مرگ زندہ" میں ان کا اسلوب نگارش منتہاے عروج پہ ہے ان تحریروں میں سراسر آمد ہے، بے ساختگی ہے، بر جستگی ہے، آورد اور تکلف و تصنع کا کہیں دخل نہیں اور لفظی گورکھ دھندہ سے تحریریں پاک ہیں 
مولانا کی اردو تحریریں خواجہ حسن نظامی کی طرح ضروری تطویل و ایجاز کے اصول پہ کاربند ہوتی ہیں؛ الفاظ کی فصاحت کے ساتھ ساتھ جملے کی بلاغت اور لفظی فضول خرچی سے اجتناب مولانا کا خاص امتیاز ہے 

"پس مرگ زندہ" کا ایک اقتباس جو انھوں نے مولانا علی میاں رحمہ اللہ کے تعلق سے لکھا ہے:

" پرخلوص تحریر وتقریر کی جادوگری واثر انگیزی"
"میں نے صرف اردو میں نہیں عربی میں بھی تحریر کے بادشاہوں کو پڑھا ہے،تقریر کے جادوگروں کو سنا ہے، الفاظ کے شہنشاہوں کو برتا ہے، فصاحت وبلاغت کے دریا بہانے والوں کا تجربہ کیا ہے، مطالعہ ومعلومات کی گم نام اورتاریک سرنگوں میں بے خطر بہت دور تک چلے جانے والے بہت سے لوگوں کا علم ہے ؛لیکن دل کی اتھاہ گہرائیوں سےمیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تحریر وتقریر کے لفظ لفظ نہیں حرف حرف پر اور ہر زیروبم پر خلوص کا جو حسن، ایمان ویقین کی جو مہرتابی، درددل کی جو لذت، انسانوں سے محبت کا جو جمال، اعلائے کلمۃ اللہ کا جو جلال، صدائے حق کی جو دل نوازی اور سوزدروں کی جو تمازت اور فقر غیور وزہد پرنور کی جو جاذبیت وحرارت میں نے مولانا علی میاں کے یہاں محسوس کی ہے وہ وہ میرے محدود علم ومطالعہ میں ان میں سے کسی کے یہاں اس بھر پور کیفیت اور طرز خاص کے ساتھ نہیں ملتی "

مولانا نے اگر ایک طرف تحریروں میں اپنے جداگانہ اسلوب نگارش اور انشا پردازی کے باعث اردو کے سرمایہء ادب میں خاصہ اضافہ کیا تو وہیں دوسری طرف براہ راست اردو کی نوک پلک درست کی جس کا ایک نمونہ "حرف شیریں" ہےجو عربی و اردو دونوں کے اصول تحریر پہ مشتمل ہے ان عظیم تنقیدی کاموں نے مولانا کو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور رشید حسن خان کی صف میں لا کھڑا کردیا

مولانا عربی زبان میں بھی اپنا مخصوص اور دل فریب طرز انشا رکھتے تھے جس میں عجمیت کی بو کیا عالم عرب کے لیے سر دھننے کے سامان ہیں مولانا کی عربی بھی غالب اور شبلی کی فارسی کی طرح دیار خویش کی بوباس سے پاک ہے

مولانا کا عربی اسلوب موضوع کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے لہذا جو اسلوب "الداعی " کے اداریے، تعلمواالعربیة اور متی تکون " کا ہے "إشراقة(من وحي الخاطر)" کا اسلوب ان سے بالکل جداگانہ ہے "اشراقة" کی فصاحت و بلاغت کے کوثرو تسنیم سے دھلی ہوئی زبان اور اس میں پنہاں ادب و آداب کا عظیم درس خلق کو دیوانہ بنانے کے لیے بہت کافی ہے "اشراقة" میں مولانا کے اسلوب بیان کی طمطراقی و شوکت اور فکر و تخیل کی رفعت الہام کی سرحدوں تک پہونچتی ہے

اشراقہ سے ایک اقتباس:
الكتابة ماهي؟ 
الكتابة ما هي؟ هناك من يعتقد أنها متعة مجردة لا تدانيها متعة لمن يتقنها؛ فيلعب بها كيف ما شاء؛ليتلهى بها عن هموميه الداخلية٬ وألمه الذي يساكن باطنه ٬ فيتخذها وسيلة لتفريغ شحنته النفسية و ضغطه الداخلي الذي يكون قد اثقل كيانه و شغله عن كل ما يهمه في الحياة (اشراقة / الداعي / رجب 1431ھ)

مولانا نے تقریبا ایک دہائی ندوة العلماء میں تدریسی خدمات انجام دیں اور مولانا علی میاں رحمہ اللہ کی مستقل رفاقت رہی مولانا امینی بھی علی میاں کی طرح مسلمانوں اور خصوصا عالم اسلام کے مسائل ان کی مشکلات مستقبل کے امکانات اور ان کے حل کے تئیں انتہائی حساس واقع ہوے تھے اس موضوع پہ "الداعی" کے اداریے ان کی ژرف نگاہی اور دوربینی کے گواہ ہیں "موجودہ صلیبی صہیونی جنگ(الحرب الصليبية الصهيونية المعاصرة) کیا اسلام پسپا ہورہا ہے؟ (هل الاسلام ينهزم اليوم؟) فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں(فلسطين في انتظار صلاح دين) " کتابوں میں تایخی بنیادوں اور شہادتوں کے ساتھ ساتھ مولانا کی ایمانی بصیرت ،ساحرانہ درس انگیزی، مولانا کا خون جگر اور گرمی نفس مسلسل محو عمل ہے جو مومن قاری کو بے رلائے نہیں چھوڑتی 

مولانا کی شخصیت کی دھاک مفتاح العربیة کے سال سے ہی دل پہ بیٹھی ہوئی تھی پھر اساتذہ کرام اور طلبہ کے منہ سے کبھی کبھی ان کا والہانہ تذکرہ مزید براں، شعبہ عربی ادب/ دارالعلوم میں داخلہ کے بعد جب مولانا سے باقاعدہ طور پہ شرف تلمذ حاصل ہوا تو ان کو بہت قریب سے جاننے کا موقع ملا وہ طلبہ میں عربی لکھنے پڑھنے کے ذوق و شوق کے ساتھ اردو کا بھی ذوق پیدا کرنے کی سعی پیہم کرتے تھے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور عالم اسلام کے مسائل ان کی ضروریات و حاجات اور ان کے خلاف ماضی وحال کی دشمنانہ سازشوں سے آگاہ فرماتے 

دیوبند کے بیشتر کتب خانے عام طور پہ انھیں کتابوں کی چھپائی و طباعت کرتے ہیں جو دیوبند کے ماحول میں سکہ رائج الوقت کی طرح چل سکیں وہ بھی نہایت غیر معیاری انداز پہ لیکن مولانا جس طرح اپنی ذاتی زندگی، اپنی نشست و برخاست، اپنے رکھ رکھاؤ اور اپنی سوچ و فکر میں بے حد نفیس و نستعلیق واقع ہوے تھے اسی طرح ان کی کتابوں کی طباعت بھی نہایت معیاری اور اعلا قسم کی ہوا کرتی ہیں ان کی کتابیں لفظی اغلاط سے پاک ،رموز و اوقاف کی مکمل رعایت، مضبوط چمک دار اور دیدہ زیب جلد، عمدہ کاغذ اور چمک دار سیاہی سے باصرہ نواز ہوتی ہیں اسی طرح مولانا کے کتب خانے پہ عربی و اردو لٹریچر کی کتابیں شعرا کے دواوین عام طور پہ دستیاب رہتے ہیں 

مولانا کے سانحہ ارتحال سے علم و ادب کے ایوان میں ایک ایسا خلا واقع ہوا ہے جس کے پر ہونے کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا 
وہ اپنے کوہ کن حوصلے اپنے حرف شیریں اور علم و ادب کے زبردست داعی و علم بردار ہونے کے سبب پس مرگ بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے
وہ اپنے کوہ کن حوصلے اپنے حرف شیریں اور علم و ادب کے زبردست داعی و علم بردار ہونے کے سبب پس مرگ بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے