65a854e0fbfe1600199c5c82

شبِ جمعہ کو روحوں کے گھروں میں آنے کا خود ساختہ نظریہ

 ✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨



سلسلہ نمبر 379:

🌻 شبِ جمعہ کو روحوں کے گھروں میں آنے کا خود ساختہ نظریہ


📿 شبِ جمعہ کو روحوں کے گھروں میں آنے کا خود ساختہ نظریہ:

بہت سے لوگ اس خود ساختہ نظریے کا شکار ہیں کہ جمعرات کے دن یا شبِ جمعہ کو فوت شدہ رشتہ داروں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں اور کھانے پینے کا مطالبہ کرتی ہیں، اس لیے ان کے مطالبے اور خواہش کو پورا کرنے کے لیے کھانے پینے کی چیزیں تیار کرکے تقسیم کرنی چاہیے تاکہ ان کی بھوک اور پیاس بھی ختم ہو اور انھیں ثواب بھی پہنچے۔ اس پسِ منظر میں متعدد بے بنیاد باتیں عوام میں رائج ہیں۔ چنانچہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب ’’اَغلاطُ العَوام‘‘ میں اس منگھڑت نظریے کو یوں ذکر فرماتے ہیں کہ:

’’عوام کا عقیدہ ہے کہ ہر جمعرات کی شام کو مُردوں کی روحیں اپنے گھروں میں آتی ہیں اور ایک کونے میں کھڑے ہوکر دیکھتی ہیں کہ ہم کو کون ثواب بخشتا ہے، اگر کچھ ثواب ملے گا تو خیر ورنہ مایوس ہوکر لوٹ جاتی ہیں۔‘‘ (اغلاط العوام صفحہ: 16 ناشر: ادارۃ المعارف کراچی)

واضح رہے کہ جمعرات کے دن یا شبِ جمعہ کو روحوں کے گھروں میں آنے کا نظریہ خود ساختہ اور غلط ہے، قرآن وسنت میں اس پر کوئی معتبر دلیل موجود نہیں، اس لیے یہ نظریہ رکھنا اور اس کی بنیاد پر کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنا ہرگز جائز نہیں۔ 


📿 شبِ جمعہ کو روحوں کے گھروں میں آنے کے نظریے کی تردید:

جمعرات کے دن یا شبِ جمعہ کو روحوں کے گھروں میں آنے کا نظریہ غلط اور منگھڑت ہے، ذیل میں اس کی تردید کی وجوہات اور مختلف پہلو ملاحظہ فرمائیں:

1️⃣ جمعرات کے دن یا شبِ جمعہ کو فوت شدہ رشتہ داروں کی روحوں کا گھروں میں آنا قرآن وسنت سے ہرگز ثابت نہیں، اس حوالے سے کوئی بھی معتبر روایت موجود نہیں، اور جو روایات بیان کی جاتی ہیں وہ محدثین کرام کے نزدیک معتبر نہیں، اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ ان کی بنیاد پر کوئی عقیدہ اور نظریہ قائم کیا جاسکے یا کسی عمل کو اپنایا جاسکے یا اس کو رواج دیا جاسکے۔ اس لیے یہ نظریہ کسی بھی طور درست نہیں۔

2️⃣ اس نظریے کی تردید کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ جمعرات کے دن یا شبِ جمعہ کو روحوں کے گھروں میں آنے کا علم یا تو مشاہدے سے ہوسکتا ہے کہ لوگ اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھیں، یا پھر وحی سے ہوسکتا ہے، چوں کہ قرآن وسنت سے اس کا کوئی معتبر ثبوت نہیں، اس لیے وحی سے تو روحوں کا گھروں میں آنا ثابت نہیں۔ جہاں تک مشاہدے کی بات ہے تو لوگوں کو اس کا مشاہدہ بھی نہیں ہوتا، اس لیے مشاہدے سے بھی اس کا ثبوت نہیں ہوسکتا، تو جب وحی اور مشاہدے دونوں ہی سے اس کا ثبوت نہیں تو پھر کس بنیاد پر شبِ جمعہ کو روحوں کے گھروں میں آنے کا دعویٰ درست قرار دیا جاسکتا ہے!

3️⃣ اس نظریے کی تردید کا تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اگر وہ روح نیک ہے تو اسے دنیا میں آنے اور کھانا پینا مانگنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیوں کہ وہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہی ہوتی ہے، اسے دنیوی کھانے پینے کی کیا ضرورت! اور اگر وہ روح بُری ہے تو کیا فرشتے اسے دنیا میں آنے دیں گے؟ وہ تو عذاب میں مبتلا ہوگی، وہ دنیا میں کیسے آسکتی ہے!

4️⃣ اس نظریے کی تردید کا چوتھا اہم پہلو یہ ہے کہ موت کے بعد روحوں کا گھروں میں آنا اُن احادیث کے بھی خلاف ہے جن میں موت کے بعد روحوں کا جنت یا جہنم کے مقامات میں ہونا بیان کیا گیا ہے۔ 

5️⃣ اس نظریے کی تردید کا پانچواں اہم پہلو یہ ہے کہ اگر روحیں گھروں میں آتی ہیں اور بھوک اور پیاس کی وجہ سے کھانے پینے کا مطالبہ کرتی ہیں اور اس مطالبہ کی بنیاد پر لوگ کھانا پینا تقسیم کردیتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہمارے گمان کے مطابق بھوک اور پیاس تو میت یعنی روح کو لگی تھی اور کھایا پیا کسی اور نے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جو کھانے پینے کا مطالبہ کررہا ہے اس کو تو کچھ نہ دیا جائے اور دوسروں کو دے دیا جائے! اس پہلو سے بھی اس نظریے کا خود ساختہ اور غلط ہونا واضح ہوجاتا ہے۔


📿 روح کا اللہ تعالیٰ کے حکم سے دنیا میں آنے کی حقیقت:

بعض لوگوں سے جب مذکورہ تفصیل کے مطابق یہ بات بیان کی جائے کہ شبِ جمعہ کو دنیا میں روحوں کے آنے کا نظریہ غلط ہے، تو وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر اللہ چاہے تو روحیں آسکتی ہیں، اس لیے شبِ جمعہ کو بھی روحیں گھروں میں اللہ کے حکم سے آجاتی ہیں۔ اس بات کا تفصیلی جواب یہ ہے کہ موت کے بعد کسی بھی میت کی روح اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر دنیا میں نہیں آسکتی، یعنی اگر اللہ کبھی کسی مصلحت کی وجہ سے روح کو اجازت دے تبھی اس کا دنیا میں آنا ممکن ہے، اور اللہ تعالیٰ کی اجازت کا علم ہمیں نہیں ہوسکتا کہ وہ کسی روح کو دنیا میں آنے کی اجازت دیتا بھی ہے یا نہیں، اور اگر اجازت دیتا ہے تو کس روح کو کب دنیا میں آنے کی اجازت دیتا ہے، ان باتوں کا ہمیں علم نہیں ہوسکتا، اس لیے محض اپنے خیالات اور قیاسات کی بنیاد پر کوئی نظریہ قائم کرنا درست نہیں۔ اس کی بنیاد پر چند باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے:

1️⃣ پہلی بات یہ کہ جب روح کے دنیا میں آنے کا تعلق اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ ہے تو روح کے دنیا میں آنے کو ایک عمومی ضابطہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ہر روح کے ہر شبِ جمعہ کو دنیا میں آنے کا نظریہ بنا لیا جائے، بلکہ عام ضابطہ یہی ہے کہ روحیں دنیا میں نہیں آتیں، یعنی انھیں اللہ کی طرف سے دنیا میں آنے کا حکم نہیں ہوتا، جیسا کہ احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ موت کے بعد روحیں جنت یا جہنم کے مقامات میں ہوتی ہیں۔ اس سے اس نظریے کی واضح تردید ہوجاتی ہے کہ ہر روح ہر شبِ جمعہ کو دنیا میں آتی ہے۔ 

2️⃣ دوسری بات یہ کہ اگر اللہ کبھی کسی روح کو دنیا میں آنے کی اجازت دے تو ہمیں یہ معلوم ہونا بھی مشکل ہے کہ کس روح کو اللہ تعالیٰ نے آنے کی اجازت دی ہے۔ 

3️⃣ تیسری بات یہ کہ کبھی کسی حکمت کے تحت کسی روح کو دنیا میں آنے کی اجازت مل جائے تو اس کے وقت کے بارے میں بھی ہمیں علم نہیں ہوسکتا۔ 

4️⃣ چوتھی بات یہ کہ اگر اللہ کبھی کسی روح کو اپنی حکمت کے تحت دنیا میں آنے کی اجازت دے دے تو اس کے بارے میں یہ معلوم ہونا بھی مشکل ہے کہ کس مقصد کے لیے اس کو اجازت ملی ہے۔ اس لیے اس سے یہ بات کہاں ثابت ہوتی ہے کہ وہ شبِ جمعہ کو کھانے پینے یا ثواب طلب کرنے کے لیے آئے گی، ظاہر ہے کہ اس کا تو ہمیں علم نہیں ہوسکتا۔ 

گویا کہ اگر روح کے دنیا میں آنے کو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ منسلک کردیا جائے تو اس میں بھی نہ تو ہر ایک روح کے آنے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی روح کی تعیین معلوم ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کا دن اور وقت معلوم ہوسکتا ہے، گویا کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی روح کو آنے کی اجازت عنایت فرما دے تو اس کا آنا ممکن ہے، لیکن اس کی بنیاد پر ہر شبِ جمعہ کو ہر رشتہ دار کی روح کے دنیا میں آنے کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ بلکہ یہ دعویٰ کسی بھی طور ثابت نہیں ہوسکتا۔


📿 دنیا میں روح کے آنے کا امکان اور اہم تنبیہ:

مذکورہ تفصیل سے متعلق یہ اہم نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یہ ساری بحث محض اس امکان کے پسِ منظر میں ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کبھی کسی حکمت کے تحت کسی روح کو دنیا میں آنے کی اجازت دے تو اس کا آنا ممکن ہے، پھر اس امکان کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ بحث میں متعدد احتمالات قائم کرکے اس کو ایک عمومی ضابطہ بنانے کی تردید کی گئی۔ البتہ امکان سے متعلق یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کسی بات کے ممکن ہونے سے اس کا واقع ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے الگ سے کسی ثبوت کی ضرورت پڑتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کسی روح کا دنیا میں آنا ممکن تو ہے لیکن کوئی روح دنیا میں آئی یا آتی ہے تو اس کے لیے ثبوت کی ضرورت پڑے گی۔ جب اس کے واقع ہونے کے لیے بھی ثبوت اور دلیل ہی کی ضرورت پڑے گی تو اس بنیاد پر بلا دلیل شبِ جمعہ کو روحوں کے دنیا میں آنے کا نظریہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے! اس لیے عام ضابطہ یہی ہے کہ روحیں موت کے بعد دنیا میں نہیں آتیں البتہ اللہ کے حکم سے کسی روح کو آنے کی اجازت مل جائے تو یہ ممکن ہے، لیکن محض اس بنیاد پر اپنی طرف سے خود ساختہ دعوے نہیں کیے جاسکتے۔


📿 مذکورہ مسئلے میں ایصالِ ثواب کی نیت:

مذکورہ تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ جمعرات کے دن یا شبِ جمعہ کو روحوں کے گھروں میں آنے کا نظریہ غلط اور منگھڑت ہے۔ اس پسِ منظر میں بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ شبِ جمعہ کو کھانا پینا تقسیم کرنے میں ہماری نیت اور مقصود میت کی روح کو ثواب پہنچانا ہوتا ہے۔ اس بات کے تفصیلی جواب کے لیے درج ذیل تفصیل سمجھنے کی ضرورت ہے:

واضح رہے کہ شریعت کی نظر میں ایصالِ ثواب کے لیے نہ تو کوئی عمل خاص ہے، نہ کوئی چیز خاص ہے، نہ کوئی دن خاص ہے اور نہ ہی کوئی مہینہ خاص ہے، بلکہ سال بھر میں کسی بھی دن کسی بھی نیک عمل کا ایصال ِثواب کیا جاسکتا ہے، اس لیے:

1️⃣ ایصالِ ثواب کے لیے دن یا مہینہ خاص کرکے اسے لازم سمجھنا یا اس کا خصوصی اہتمام کرنا بدعت کے زمرے میں آتا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ ایصالِ ثواب کے نام پر رائج تیجہ، سوئم، ہفتم، جمعرات، جمعہ، چالیسواں، چہلم، برسی؛ سب کے سب بدعت اور گناہ ہیں۔ اسی طرح ایصالِ ثواب کے لیے محرم، رجب یا کسی اور مہینے کو خاص کرنا بھی بدعت اور ناجائز ہے۔ گویا کہ ایصالِ ثواب کے لیے شبِ جمعہ خاص کرنا بدعت ہے۔

2️⃣ ایصالِ ثواب کے لیے کوئی چیز یا عمل خاص کرکے اسے لازم سمجھنا یا رسم بناکر اس کا خصوصی اہتمام کرنا بھی بدعت کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے ایصالِ ثواب میں بکرا ذبح کرنے، چولے پکانے، خیرات کرنے، دیگیں چڑھانے، کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے اور ان جیسے دیگر امور کو لازم سمجھنا اور ان کو رسم بناکر خصوصی اہمیت دینا بھی بدعت اور ناجائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر میت کی روح کو ثواب پہنچانا ہی مقصود ہے تو ثواب پہنچانے کے تو بہت سے طریقے ہیں کہ کسی بھی نیکی کا ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے صرف کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کو کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ بھی بدعت ہے۔

3️⃣ ایک ضمنی پہلو یہ بھی ہے کہ آجکل ایصالِ ثواب میں کھانے پینے کی چیزیں اس لیے بھی تقسیم کی جاتی ہی تاکہ نام ونمود ہواور لوگوں کی ملامت سے بچا جاسکے، ورنہ تو لوگ کہیں گے کہ والد صاحب فوت ہوگئے اور ایک دیگ چاول بھی خیرات نہ کیا، یہ کیسی اولاد ہے!! ظاہر ہے کہ اس نیت سے ایصالِ ثواب کرنا ہی ناجائز ہے۔ 


📿 ایصالِ ثواب کی وسعت اور آسانی:

ایصالِ ثواب ہر قسم کی مالی اور بدنی عبادت کا کیا جاسکتا ہے، اس میں بڑی وسعت اور سہولت ہے، جیسے: ذِکر کرلیا، تسبیحات پڑھ لیے، درود شریف پڑھ لیا، استغفار کرلیا، تلاوت کرلی، اس میں بھی مکمل قرآن کریم ختم کرنا ضروری نہیں بلکہ جتنا سہولت سے ہوسکے تلاوت کرکے ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے، نفل نماز پڑھ لی، حج کرلیا، عمرہ کرلیا، صدقہ دے دیا، درخت لگا لیا، مدرسہ، مسجد، ہسپتال یا کنواں تعمیر کرلیا، مسجد میں بوقتِ ضرورت قرآن کریم رکھ دیے، طالب علم کو دینی کتب دے دی، مقروض کا قرض ادا کردیا، ضرورت مند کی مدد کردی، مدارس میں تعاون کردیا، دینی کتاب تصنیف کردی، الغرض ہر نیکی کا ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایصالِ ثواب کو شریعت نے بہت ہی آسان رکھا ہے کہ نہ تو اس میں مال ضروری ہے، نہ قرضہ لینا، نہ بوجھ سہنا، نہ مشقت جھیلنا اور نہ پریشان ہونا، بلکہ نہایت ہی سہولت سے ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔ باقی یہ ساری تنگیاں تو ہم نے اپنی طرف سے بنا رکھی ہیں۔


📿 ایصالِ ثواب کی قبولیت کے لیے دو اہم اصول:

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایصالِ ثواب کی قبولیت کے لیے دو بنیادی اصول درج ذیل ہیں:

▪ایصالِ ثواب اخلاص کے ساتھ ہو کہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے، اس میں ریاکاری اور نام ونمود کا جذبہ نہ ہو۔

▪ایصالِ ثواب شریعت کی تعلیمات کے مطابق کیا جائے، اس کے لیے خود ساختہ طریقے ایجاد نہ کیے جائیں۔

ان دو باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہ پائی گئی تو وہ ایصالِ ثواب اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت نہیں پاسکتا، جس کے نتیجے میں نہ تو اس عمل کرنے والے کو ثواب مل سکتا ہے اور نہ ہی یہ کسی دوسرے کو بھیجا جاسکتا ہے، بلکہ ایسا کرنے والا گناہ گار ٹھہرتا ہے۔


📿 ایصالِ ثواب کے نام پر بدعات کا ارتکاب کیوں؟

جب ایصالِ ثواب سے مقصود دوسروں کو ثواب پہنچانا ہے تو پھر اس کے لیے خود ساختہ اور غیر شرعی طریقے کیوں اختیار کیے جاتے ہیں؟؟ بدعات اور رسومات کا ارتکاب کیوں کیا جاتا ہے؟؟ حالاں کہ یہ تو واضح سی بات ہے کہ ایصالِ ثواب میں ثواب تبھی پہنچ سکتا ہے جب وہ اخلاص کے ساتھ شریعت کی تعلیمات کے مطابق ہو۔ کیا اللہ کو ناراض کرکے ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے؟؟ جب ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر ایصالِ ثواب کے لیے شریعت کی تعلیمات کو مدنظر کیوں نہیں رکھا جاتا؟؟ گویا کہ مقصود ایصالِ ثواب نہ ہوا بلکہ نام ونمود ہوا، ورنہ تو جس کا مقصود ایصالِ ثواب ہو وہ تو بدعات ورسومات کا کبھی ارتکاب نہیں کرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نام نمود کے جذبے سے یا غیر شرعی طریقے سے ایصالِ ثواب کرنے والا اپنے فوت شدہ مرحومین کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا!


📿 ایصالِ ثواب کے نام پر مروّجہ بدعات کے نقصانات:

آجکل ایصالِ ثواب کے نام پر جو بدعات ورسومات جاری ہیں ان کے نقصانات بہت زیادہ ہیں جیسے:

▪شریعت کی خلاف ورزی۔

▪بدعات ورسومات کا ارتکاب۔

▪بدعات ورسومات کو قوت پہنچانا۔

▪مال کا ضیاع۔

▪گناہ کا ارتکاب۔

▪اللہ تعالیٰ کی ناراضگی۔

▪ایصالِ ثواب کا بے فائدہ ہونا کہ اس میں دوسروں کو ثواب پہنچتا ہی نہیں۔ وغیرہ


🌹 فائدہ: ایصالِ ثواب سے متعلق تفصیلی احکام کے لیے اس سلسلہ اصلاح اغلاط کا سلسلہ نمبر 172: ’’ایصالِ ثواب شریعت کے مطابق کیجیے!‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔


📚 فتاویٰ جات:

1️⃣ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ یوں فرماتے ہیں کہ:

’’مُردوں کی روح کے دنیا میں آنے کا خیال غلط ہے، کیوں کہ جو نیک ہیں وہ تو دنیا میں آنا نہیں چاہتے اور جو بد ہیں انھیں اجازت نہیں مل سکتی۔‘‘ (اغلاط العوام صفحہ: 13 ناشر: ادارۃ المعارف کراچی)


2️⃣ *دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ:*

’’جمعرات کی شب یا دن کو روحوں کا اپنے گھر آنا یا چکر لگانا بے اصل اور من گھڑت عقیدہ ہے، کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی اس پر کوئی شرعی دلیل موجود ہے، نیز مذکورہ عقیدہ کا بطلان عقل سے بھی سمجھ میں آتا ہے کیوں کہ میت اگر جہنمی ہے اور عذاب میں گرفتار ہے، تو اس کی روح کا عذاب سے چھوٹ کر آنا کیوں کر ممکن ہے؟ اور فرشتے اس کو کیوں چھوڑ سکتے ہیں؟ اور اگروہ جنتی ہے تو دنیا کی فانی ومادی چیزوں کی تلاش میں وہ کیوں آئے گی؟ فقط واللہ اعلم۔‘‘ (فتویٰ نمبر: 144008200643، تاریخِ اجرا: 02-05-2019)

3️⃣ *فتاویٰ حقانیہ میں اسی سے متعلق ایک جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:*

 ’’موت کے بعد روح کا گھر یا دنیا میں واپس آنا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں، اور نہ ہی عقل اس کی تائید کرتی ہے، بلکہ موت کے بعد روح کا جنت یا دوزخ میں ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے، اس لیے ایسا عقیدہ رکھنا خلافِ شرع ہے، عوام الناس کو اس غلط عقیدے سے منع کرنا چاہیے۔ (1/ 208)

4️⃣ *فتاویٰ محمودیہ میں اسی سے متعلق ایک تفصیلی جواب تحریر فرماتے ہیں:*

’’انتقال کے بعد ارواح کا دنیا میں مکان پر آنا یا نہ آنا، نہ تو ان مسائلِ اعتقادیہ میں سے ہےجن پر ایمان لانا فرض ہو، اور نہ ہی مسائلِ فقہیہ جزئیہ میں سے ہے کہ جس کو حل کیے بغیر عمل ممکن نہ ہو، اس لیے اس الجھن میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ مُردوں کی ارواح کا مکان پر آنا نہ تو قرآن کریم کی کسی آیت سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی صریح حدیث سے اس کا ثبوت ہے، جن احادیث کا حوالہ آپ نے دیا ہے انھیں اصحابِ صحاح نے اختیار نہیں کیا ہے، اور وہ اس پایہ کی نہیں کہ اس سے کسی ضروری مسئلہ کا اثبات کیا جاسکے۔ اصولی بات وہی ہے جو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ’’اشرف الجواب‘‘ ص: 119 میں تحریر فرمائی ہے کہ مردہ اگر مُنْعَم علیہم ہے تو اسے یہاں آکر لپٹتے پھرنے کی کیا ضرورت ہے، اور اگر معذَّب ہے تو فرشتگانِ عذاب کیوں کر چھوڑ سکتے ہیں۔ باقی اگر اللہ جلّ شانہ کسی روح کو اجازت دے دیں تو کوئی وجہ رکاوٹ کی بھی نہیں۔

میت کے انتقال کے بعد اپنے گھروالوں اور متعلقین سے کچھ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور وہ متعلقین سے امیدوار رہتی ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ امید اور تعلق ہی لوگوں کوتمثُّل ہو کر ظاہر ہوجاتے ہیں، مثلًا یہ کہ روح دروازہ پر کھڑی ہے، کھانا مانگتی ہے اور ضروریات طلب کرتی ہے، یہ حقیقت نہیں ہوتی، بلکہ تمثل ہوتا ہے، کیوں کہ ارواح کو اُس عالم میں دنیاوی ضرورت کی نہ تو حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ چیزیں ان کے لیے وہاں مفید ہوسکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایصالِ ثواب کے طور پر جو چیزیں میت کی روح کو بخشی جاتی ہیں وہ بھی اس اصلی صورت میں نہیں بلکہ اخروی نعمتوں کی صورت میں متشکل ہوکر پیش ہوتی ہے۔‘‘ (1/ 606، 607)

فتاویٰ محمودیہ میں اس مسئلے کی مزید تفصیل بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

5️⃣ *فتاویٰ رشیدیہ میں اس حوالے سے ایک جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ:*

’ارواحِ مؤمنین کا شبِ جمعہ وغیرہ کو اپنے گھر میں آنا کہیں ثابت نہیں ہوا۔ یہ روایات واہیہ ہیں، اس پر عقیدہ کرنا ہرگز نہیں چاہیے۔‘‘ (کتاب الجنائز صفحہ: 281)

▪ *ایک اور جواب میں تحریر فرماتے ہیں:*

’’مردوں کی روحیں شبِ جمعہ میں اپنے اپنے گھر نہیں آتیں، روایت غلط ہے۔‘‘ 

(کتاب الجنائز صفحہ: 282)


❄️ خلاصہ:

زیرِ بحث تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ شبِ جمعہ کو یا جمعرات کے دن فوت شدہ رشتہ داروں کی روحوں کا گھروں میں آنا ایک منگھڑت اور غلط نظریہ ہے، قرآن وسنت میں اس پر کوئی معتبر دلیل موجود نہیں، اس لیے یہ خود ساختہ نظریہ رکھنا اور اس کی بنیاد پر کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنا ہرگز جائز نہیں۔ 


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

11صفر المظفّر 1442ھ/ 29 ستمبر2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے