65a854e0fbfe1600199c5c82

ہم جنس پرستی :عوامل اور سد باب۔۱

 ہم جنس پرستی :عوامل اور سد باب۔۱

=============


آج کل یورپ میں "گے پرائیڈ پریڈ" کا کافی چرچا ہے اور مختلف ممالک میں "گے پرائیڈ پریڈ" منعقد کی جارہی ہے۔ جو لوگ نہیں جانتے کہ "گے پرائیڈ" کیا ہوتی ہے، ان کے لئے مختصراً عرض ہے کہ "گے پرائیڈ پریڈ" ہم جنس پرستوں کی ایک ریلی ہوتی ہے جہاں ہم جنس پرست برہنہ و نیم برہنہ حالت میں سڑکوں پر ریلی نکال کر "اپنے حقوق" کی جانب لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ اس پرائیڈ کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم جنس پرستی کو ایک نارمل چیز سمجھ کر اس کو انسانی معاشرے میں قبولیت عطا کی جائے۔ یورپی ممالک میں اس سلسلے میں کیا ہورہا ہے اور وہاں ہم جنس پرستی کس طور سے پھیل رہی ہے، اس موضوع کو ہم کسی دوسرے وقت کے لئے اٹھارکھتے ہیں۔ فی الحال ہم پاکستانی معاشرے میں ہم جنس پرستی کے عوامل اور اس کے سد باب پر گفتگو کرنا چاہیں گے۔ یہ موضوع تفصیل کا متقاضی ہے سو شاید ممکن نہ ہو کہ ایک ہی تحریر میں تمام ضروری باتوں پر کلام کیا جاسکے۔ جہاں تک ممکن ہوسکا اس موضوع پر قسط وار اپنی گزارشات سامنے رکھنے کی کوشش کرونگا۔


ہم جنس پرستی کے سلسلے میں چند ہفتے قبل محترم خلیل چشتی صاحب کی تحریر بنام "ہم جنس پرستوں کو کیسے سمجھایا جائے" پڑھنے کو ملی جس میں انہوں نے وعظ و نصیحت اور ترغیب و ترہیب سے ہم جنس پرست لوگوں کو سمجھانے کی بات کی ۔ تحریر بلاشبہ نہایت اچھی تھی لیکن اس میں ہم جس پرستوں کی نفسیات کے بجائے نارمل انسانوں کی نفسیات کو مدنظر رکھ کر نکات بیان کئے گیے تھے۔ جبکہ اصل ضرورت یہ بات سمجھنے کی ہے کہ وہ کیا نفسیاتی عوامل ہیں جن کا تدارک کرکے لوگوں کو ہم جنس پرستی سے روکا جاسکتا ہے یا پھر جو لوگ اس طرف مائل ہیں، انکی زندگی کو دوبارہ نارمل طریقے پر ڈالا جاسکتا ہے۔ خلیل چشتی صاحب کی تحریر میں مشتمل تمام نکات سے ایک ہم جنس پرست انسان جو کہ ہم جنس پرستی کو گناہ سمجھتا ہے متفق ہوگا لیکن اصل مسئلہ صرف اتفاق کا نہیں ہے بلکہ اتفاق رکھتے ہوئے اس معصیت سے بچنے کا ہے۔ پاکستان میں موجود پچاس فیصد ہم جنس پرست یہ مانتے ہیں کہ وہ ایسے پیدا کئے گئے ہیں تاہم وہ ساتھ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ ان کی آزمائش ہے لیکن اس آزمائش سے انکو کیسے عہدہ برآ ہونا ہے، یہ انکے لئے ایک نہ حل ہونے والا معمہ ہے۔ کئی ہم جنس پرست باقاعدہ بنیادوں پر جسمانی تعلقات قائم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اس فعل کو گناہ بھی سمجھتے ہیں لیکن گناہ سمجھنے کے باوجود اپنی فطرت کو قصوروار ٹھہرا کر وہ اسکا بار بار ارتکاب کرتے ہیں اور پھر یہ گناہ ان کے ہاں نہایت ہلکی نوعیت کا بنتا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہم جنسیت میں اس قدر منہمک ہوجاتے ہیں کہ ان کے نزدیک وہ شادی کے قابل نہیں رہتے اور انکو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ شادی کرکے اپنے یا اپنی شریک حیات کی زندگی تباہ کردینگے سو وہ اس ڈر سے شادی ہی نہیں کرتے۔ ایسے مرد ہم جنس پرست برملا کہتے ہیں کہ ہم شادی کرکے کسی لڑکی کی زندگی کیوں تباہ کریں، اس سے بہتر ہے کہ ہم شادی ہی نہ کریں اور وہ یہ بات بہت ایجابی طریق پر اپنے تئیں صالح جذبے کے تحت سوچ رہے ہوتے ہیں لیکن شادی نہ کرنا انکو اس دلدل میں مزید دھکیلتا جاتا ہے۔ سو اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ ایسے افراد کے نفسیانی عوامل کو زیر بحث لاکر انکو نارمل زندگی کی طرف راغب کیا جائے۔ 


برخلاف یورپی معاشروں کے اسلامی معاشروں اور ملکوں میں ہم جنس پرستی کی روک تھام کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اسلامی ممالک میں رہنے والے اکثر ہم جنس پرست اس فعل کی شناعت کے نہ صرف قائل ہوتے ہیں بلکہ اس کو سخت گناہ جان کر ہی اس کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں بعینہٖ جیسے ہم سے میں بیشتر لوگ بعض گناہوں کی شناعت سے واقف ہونے کے باوجود روز مرہ زندگی میں اپنے ایمان کی کمزوری کے سبب ان کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ تاہم یہ افراد اپنے آپ کو عام "اسٹریٹ "یعنی نارمل انسانوں سے مختلف جانتے ہیں اور خود کے اس گناہ میں ملوث ہونے کے جواز تراشتے رہتے ہیں۔اس سلسلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں کا اعتماد جیت کر انکو آہستہ آہستہ اس بات کا یقین دلایا جائے کہ وہ نارمل انسانوں جیسےہی ہیں، کوشش کرکے ان کی صحبت اور مجالست ان کے ہم مزاج لوگوں سے ختم کروائی جائے اور غیر محسوس طریقے سے کوشش کی جائے کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت نارمل لوگوں میں گزاریں۔


ہم جنس پرستی کی ایک بڑی وجہ مخصوص ماحول میں وقت گزارنا ہے۔ جب کسی بھی وجہ سے بچپن میں کسی بچے میں نسوانیت کے آثار دِکھنا شروع ہوتے ہیں تو اس کے رشتے دار، یار دوست اس کو سمجھنے کے بجائے اس کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بچہ ایسے لوگوں سے دور بھاگنا اور ان میں گھلنا ملنا چھوڑ دیتا ہے۔ اسی اثناء میں اگر اس کو اپنی ہی طرح کے نسوانی دوست میسر آجائیں تو وہ نارمل انسانوں سے آہستہ آہستہ کنارہ کشی کرکے ان لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کردیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اندر موجود نسوانیت مزید ابھر کر سامنے آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اسی دوران میں چاہے صحبت و مجالست کے زیرِ اثر ہو یا پھر کسی اندرونی خواہش کے سبب، ایسے بچوں کو اپنی ہی جنس کے لوگوں میں دلچسپی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ وہ صنف مخالف میں بہترین دوست ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں جب کہ اپنی جنس کے لوگوں سے پیار محبت اور جسمانی تعلق کے خواہاں ہونے لگتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر ان کی طرف مناسب طریقے سے توجہ نہ دی جائے تو ان کا ہم جنس پرستی کی طرف جانا یقینی ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اول کرنے والا کام تو یہ ہے کہ اگر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ بچپن سے اس کے بچے میں لڑکیوں کی سی نزاکت و ادائیں ہیں یا بچی میں لڑکوں سی سختی و کرختگی ہے تو مناسب ہے اسی وقت اس بات پر توجہ دیکر غیر محسوس طریقے سے اسکو نارمل یعنی اسٹریٹ لڑکوں میں اٹھنے بیٹھنے کی ترغیب دلائی جائے، اور یہی کام لڑکیوں کے ساتھ بھی کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ آپ کے بچے کا کوئی ایسا دوست نہ بنے جو خود بھی اپنے اندر نسوانیت رکھتا ہو۔


جیسے جیسے بچے کی عمر بڑھے، نہایت غیر محسوس طریقے سے اسکی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں، کوشش کریں کہ اسکو پتہ لگے بغیر آپ اسکو نارمل لائف کی طرف دھکیلیں۔ اسکو زیادہ سے زیادہ اسکے اسٹریٹ یعنی نارمل دوستوں میں وقت گزارنے کا موقع فراہم کریں۔ بہنوں کے ساتھ زیادہ انوولو نہ ہونے دیں ، اور جتنی جلدی ممکن ہو اسکی شادی کردیں۔ ان بچوں کو بار بار غیر محسوس طریقے سے یقین دلائیں کہ وہ بالکل نارمل ہیں اور ہماری سب کی زندگی اللہ کی امانت ہے جو کہ ہمیں اسکی مرضی سے گزارنی ہے۔" میری زندگی میری مرضی "والی فلاسفی سے ان بچوں کو حتی الامکان دور رکھنے کی کوشش کریں۔


المختصر ایسی کئی تجاویز ہوسکتی ہیں جو کہ ایسے لوگوں کی نفسیات کو پرکھ کر دی جاسکتی ہیں۔ یہ مسئلہ دینی سے زیادہ معاشرتی بنتا جارہا ہے۔ اس لیے صرف اللہ اور آخرت کا خوف دلا کر ہم جنسیت کا خاتمہ کرنا کافی مشکل رہے گا۔ اوپر مذکورہ وجہ کے علاوہ بھی ایک انسان کے ہم جنس پرستی میں مبتلا ہونے کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں۔ اکثر بچے بچپن میں بالکل ٹھیک ہوتے ہیں، ان میں نسوانیت وغیرہ کچھ نہیں ہوتی لیکن ہوتا کچھ یوں ہے کہ والدین کی غفلت کے سبب ان بچوں کا کوئی قریبی دوست، ساتھی، محلے دار یا انکل ان کے ساتھ ان کی کمسنی میں جسمانی تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ بچے نہ چاہتے ہوئے بھی ہم جنس پرستی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کا پہلا شہوانی تجربہ صنفِ مخالف کے بجائے اپنی ہی جنس کے انسان سے ہوا ہوتا ہے سو ان کو اسی تجربے کی عادت اور اس میں مزا آنے لگتا ہے اور یوں وہ ابتداً اندر سے ایسی خواہش یا کوئی ذاتی محرک نہ رکھنے کے باوجود اس چیز میں لطف محسوس کرنے لگتے ہیں اور ہم جنس پرستی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اور یوں دوسروں کی ہوس کا شکار ہوکر بالکل نارمل پیدا ہونے والا بچہ جس کو کوئی نفسیاتی عارضہ بھی لاحق نہیں ہوتا، وہ اس شنیع عادت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ 


اس سلسلے میں والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ بچہ کن کے ساتھ وقت گزار رہا ہے، اس بات کا خصوصی خیال رکھیں اور کسی منہ بولے بھائی، ماموں، چچا، انکل کے ساتھ بچے کو ضرورت سے زیادہ وقت نہ گزارنے دیں اور نہ ہی اپنی عمر سے بڑے افراد کے ساتھ اسے اکیلا گھومنے جانے دیں۔ ساتھ ہی بچپن سے بچوں کو غیر محسوس طریقے سے یہ بتائیں کہ باہر کے کسی شخص کو یہ اجازت نہ دیں کہ وہ ان کے پرائیوٹ حصوں یا شرم گاہ کے آس پاس کے حصوں پر ہاتھ لگائے یا ان کو پیار کرے یا گود میں بٹھائے۔ خود گھر میں بھی کوشش کریں کہ بچوں کو ان کے پرائیوٹ پارٹس کے آس پاس کے حصوں پر نہ چھوئیں اور نہ پیار کریں تاکہ وہ اس لمس سے قطعی اجنبی رہیں اور اگر کبھی کوئی باہر کا شخص ان کے ساتھ ایسی چھیڑ چھاڑ کرے یا ان کے ان حصوں کو چھونے کی کوشش کرے تو ان کی چھٹی حِس ان کو فوراً خطرے کا احسا س دلادے اور ان کو ان حصوں پر ہاتھ لگانے پر انکمفرٹ ایبل کردے۔ ساتھ ہی ان کو یہ اعتماد دیں کہ اگر کوئی ان کے ساتھ کسی قسم کی غیر مناسب حرکت کرتا ہے تو وہ آپ کو آکر بتائیں اور آپ ایسا کچھ سن کر قطعی ناراض نہ ہونگے بلکہ بچے کی حوصلہ افزائی کرینگے۔


یہ تو ہم جنس پرستی سے متعلق محض چ ند نفسیاتی عوامل اور ان کا سد باب تھا۔ ان شاءاللہ کوشش ہوگی کہ اگلی کچھ تحاریر میں ہم جنس پرستوں کی نفسیات اور ان کے مسائل سے متعلق بھی گفتگو کی جائے۔ یاد رکھئے یہ ہم جنس پرست معدودے چند کو چھوڑ کر جن کی فطرت ہی مسخ ہوچکی ہو، آپ اور ہم جیسے انسان ہی ہیں، یہ کوئی قابل نفرت لوگ نہیں بلکہ قابل رحم اور ہمدردی کے مستحق ہیں جو اپنے نامساعد حالات کے سبب ہم جنس پرستی کے اس دلدل میں دھنس گئے ہیں۔ پیار، احترام اور ان کو انکا اعتماد لوٹا کر ہی ہم ان کو واپس نارمل کرسکتے ہیں۔اور اگر ہماری تمام تر کوششوں کے بعد بھی کوئی اس دلدل سے نہ نکلنا چاہے تو پھر یقیناً وہ موجبِ سزا و عقاب ہے، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔


تحریر: محمد فھد حارث

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے