65a854e0fbfe1600199c5c82

انٹرنیٹ کی لت

انٹرنیٹ کی لت



 ان  لوگوں سے ملیے !!

انہیں ایسی لا علاج بیماری ہے جسکی کوٸی دوا نہیں  ایسی چیز کی لت لگی ہے جوچھٹتی نہیں ۔چاہتے ہوئے بھی اس کو چھوڑ نہیں سکتے اسکے نقصان سے واقف ہونےکےباوجودچند لمحہ کنارہ کشی اختیار نہیں کرسکتے۔

  معاف کیجیے گا یہ بدبودار زہریلے دھوٶں کے عادی نہیں ہیں ہے یہ شراب کے نشے میں دھت رہنےوالے نہیں

یہ جوے سٹے  میں ہارجیت کے عادی نہیں ان کی زندگی تعیشات وتنعمات میں تباہ نہیں ہورہی ہےبلکہ یہ دنیا کی مقبول اور مہذہب ترین چیز کے عادی ہیں ۔انھیں انٹرنیٹ کی لت لگ گئی ہے ۔

 انٹرنیٹ تو بہت اچھی چیز ہےیہ علم کا سمندر ٗمعلومات کاخزینہ حالات وواقعات کاذخیرہ اور تاریخ کا بحر بیکراں  ہے  جو زود نویسی کے ساتھ ساتھ زود اطلاعی میں بھی ممتاز '  بلکہ سب کچھ بروقت دستیاب ہے گوگل فیس بک ٹیلی گرام یوٹیوپ وغیرہ تو  علوم وفنون اخبارات و معلومات کےسمندر تک رساٸی اور ان میں غوطہ زنی کرنے کے سب سے مٶثر ذراٸع ہیں۔ تا ہم کذب وفریب پر مبنی پوسٹیں دین مخالف مضامین تشکیک پیدا کرنے والے بیانات افترا آمیز تاریخی شواہد  بےجاحک واضافے پر مشتمل  فکری کتب وغیرہ نے مذاہب اور اہل مذاہب سے تنفر پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ تعلیمی اور تحقیقی سرگرمی سے زیادہ لگاٶ رکھنے والےفکری آسودگی کے بجاۓ ذہنی خلش اور قلبی بے چینی کے شکار ملتے ہیں ۔

 

         نیٹ کےاکثر صارفین  شباب وتعیش پر منبی ویڈیوز وموویز  فحش اور عریاں ویب ساٸٹس پب جی جیسے انٹر نیٹ گیمس پیارومحبت بھری کلپس کی وجہ سے اس کی لت میں بری  طرح پھنس جاتے ہیں  پھر بھتیری کو ششوں کے باوجود اس دلدل میں ایسے دھنستے چلے جاتے ہیں  کہ اس کے بغیر ایک آن بھی نہیں رہ پاتے ہیں ۔جبکہ یہی لوگ  بیوی  بچے ماں باپ گھر بار کاروبار تعلیم وتدریس ڈیوٹی اور نوکری کی مشغولیت سے پیدا شدہ ذہنی تھکاوٹ دور کرنے لے لیۓان سب کو چھوڑ کر کھلی فضا میں انجواۓ کرنے چلےجاتےہیں۔

        وقت کی تیز گامی اور سر پٹ ڈورتے ہوۓ گھوڑے کی مانند زندگی میں آج پاگلوں کے پاس بھی ٹاٸم نہیں  ہےایسے بزی ماحول میں رات ودن اسی میں لگے رہنا،نہ ذمہ داری کا خیال، نہ خوف ِ خدا ،نہ ہی والدین کا ڈر، اور نہ ہی صحت کا دھیان نہیں نہ بچوں کی پرورش اور نہ ان پر نگہ داشتی حالت بایں جا رسید کہ مہمانوں کی دلداری اور رشتہ داروں کی ناطے داری کاخیال نہ رکھنا اسی کی دین ہے ۔

         علاوہ ازیں جو اسکا عادی ہوتا ہے وہ نیٹ کے بغیر ایک دن گزار نہیں سکتا  سب کچھ ہونے کے باوجود  دل کوچین وسکون میسر نہیں ایسا لگتا ہے جیسے اس کا سب کچھ لٹ گیا ہو اورصدیوں کا بیمار ہو۔

اس کیفیت  کےشکار دوچند لوگ نہیں بلکہ دنیا بھر میں نیٹ استعمال کرنے والوں کی اکثر تعداد اس لت کمیں پھنسی ہوٸی ہے ۔مزید بڑھتی ہوٸی تعداد نے عالمی سطح پر ایک تشویشناک مسٸلہ بنادیاہے۔ 

       انٹر نیٹ کی لت تعلیم وتدریس  پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی معلومات  اکثرو بیشتر درسی کتا بوں سے غیر متعلق ہوتی ہیں اس لیۓ طالب علم لا شعوری طور پر نصابی تعلیم سے دور ہو جاتا ہے  نیز نیٹ پر موجود معلومات غیر منظم ہونے کی بنا پر مبتدی طلبہ کی تعلیمی کار کردگی پرمنفی اثر پڑتا ہے۔ تعلیم اور تحقیق کے نام پروقت کا ضیاع اور دولت کا اسراف بھی نیٹ  کا ما حصل ہے۔ اسی لیۓ کہا جاتا ہے کہ” موباٸیل کے استعمال کی گو کہ اجازت ہے تاہم احتیاط اولی  ہے“  

        ماہرین اطبا ٕ کے مطابق جو آدمی زیادہ انٹر نیٹ کا استعمال کرتا ہے ان میں چند خرابیاں اوربیماریاں در آتی ہیں 

 مثلاً ”دیر تک موباٸیل چلانے کے باوجود آسودہ خاطر نہ ہونا  ہمہ وقت دل کا اس میں اٹکا رہنا 

تنہاٸی پسند ہو جانا نیٹ ورکنگ پرابلم کے وقت حد درجہ آزردہ ہوجانا  دیرتک بیٹھے رہنے کی وجہ سے درد اورتھکان  سے دوچار ہونا نیند کامتأثر  ہوناذہن کا آرام نہ ملنا  قوت مدافعت میں گراوٹ کاآنا بیناٸی متأثر ہونا۔دوستیاں اور تعلقات کا دم توڑنا“ وغیرہ اسکی عمومی بیماریاں ہیں  بلیڈ پریشر  بلیڈ کینسر ہارٹ اٹیک  کومے جیسی کیفیت  میں اسکا بڑادخل ہے

 نیٹ چھڑانے کےلیۓکوٸی انٹی واٸریس دوا اب تک ایجاد نہیں ہوٸی ہے البتہ جوتدابیر تجویزاً بتاٸی جاتی ہیں ان کا عموماًتعلق  نظام الاوقات سے ہے ۔اس لیۓ انسان سب سے پہلے اپنے تمام کاموں کو بر وقت کرنےکی کوشش کرے کاہلی اور سستی کے بغیر انکو انجام دے وقت کی اہمیت اور فضول خرچی  بچوں کی تربیت و پرورش کےتعلق سے تذکیری نوٹ کو ہمہ وقت ملحوظ نظر رکھے  اور دل کو دیگر تعمیری سماجی اور رفاہی سر گرمیوں  میں  شرکت آمادہ کرے 

إن شا ٕاللہ بہت حد تک اس میں کمی آسکتی ہے ۔

 عبیدالرحمن عبیداللہ قاسمی  7026796531 ufbqasmi5@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے