65a854e0fbfe1600199c5c82

آؤ چمچہ گِری سیکھیں!

 آؤ چمچہ گِری سیکھیں۔



آیئے آج ہم رموزِ چمچہ گِری بتاتے ہیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں اِسی کام کے کرنے والوں کو king maker یا lobbyist کہاجاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نہ جانے کیوں اِنہیں چمچہ کہتے ہیں حالانکہ کام من و عن وہی ہیں ۔ شاید اسلئے کہ ہمارے ہاں اِسطرح کے افراد کی بہتات ہے۔ ایک ڈھونڈھو ہزار ملتے ہیں ۔ وہاں تو چمچے ہمیشہ چمچے ہی بنے رہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہم نے اِنہیں صدر اور وزیرِاعظم بھی بنتے دیکھا ہے۔

کالج اور یونیورسٹیوں میں یوں تو ہر طرح کے اخلاقی اور غیر اخلاقی سبھی موضوعات پر ڈپلوما اور ڈگری کورسس پڑھائے جاتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں چمچہ گری کا سبجیکٹ نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ ہمارے نزدیک مصوّری، اداکاری اور شاعری وغیرہ کی طرح چمچہ گری فنونِ لطیفہ میں شامل ہے بلکہ فنونِ لطیفہ میں سرِفہرست ہے۔ خیر مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد یہ کورس نہ صرف ہمارے ہاں پڑھایا جائیگا بلکہ مستقبل میں امریکہ یورپ میں بھی اگر چمچہ گری کا کورس پڑھایا جائیگا تو تھیوری اور پراکٹیکل کے جتنے ایکسپرٹ ہوں گے وہ ہند و پاک سے ہی بلائے جائینگے۔


چمچہ گری ایک مکمل فن ہے جس کی تربیت کے باضابطہ اصول و ضوابط ہوتے ہیں ۔

اِس فن کا موجد پہلا وہ شخص تھا جس نے نوابوں اورجاگیرداروں کے سامنے سیدھے سیدھے "السلام علیکم" کہنے کے بجائے سر اور کمر کے بَل جھک جھک کر فرشی سلام و آداب عرض ہے کہنے کی تہذیب ایجاد کی۔جو لوگ بغیر تربیت یا ٹریننگ کے چمچہ گری کے چمتکار دکھانا چاہتے ہیں وہ سخت نادان ہیں۔ اِنہیں غیر تربیت یافتہ چمچوں کی وجہ سے سارے چمچے بدنام ہوتے ہیں ۔اکثر ہمارے دانشور کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ساری بُرائیوں کی جڑ ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ نہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے نہ صلاحیتوں کی اور نہ دانشوروں کی ۔ کمی ہے تو صرف چمچوں کیلئے صحیح تربیت گاہوں کی۔

آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیرِ امم کیا ہے

ہے چمچہ گِری اوّل طاؤس و رباب آخر


آیئے ہم آپ کو چمچہ گری کے چند فضائل و برکات سے آگاہ کریں۔

ہم نے ہزارہا ڈاکٹروں انجینیروں اور شاعروں و ادیبوں کو غالب کی طرح فکرِ غمِ ہائے روزگار میں مبتلا دیکھا لیکن کبھی کسی چمچے کو بیروزگار نہیں دیکھا۔ ہر چمچہ کسی نہ کسی بڑے چمچے کا چمچہ ہوتا ہے اور وہ بڑا چمچہ آگے کسی نہ کسی اور بڑے چمچے کا چمچہ ہوتا ہے۔ اور یہ شجرۂ نسب جاکر اُس مہان شخصیت سے ملتا ہے جس نے تخلیقِ کائنات کے وقت خالقِ کائنات کو مطلع کردیا تھا کہ جسطرح تو اپنے برگزیدہ بندے وقتاً فوقتاً زمین پر بھیجتا رہیگا میں بھی اپنے برگزیدہ بندے ہر دور میں ہر مقام پر بھیجتا رہوں گا۔

یہ ہر جگہ اِسطرح پھیلے ہوئے ہیں جس طرح نظامِ شمسی یعنے solar system میں مختلف تارے اور سیّارے۔ یہ مختلف مداروں میں گردش کرتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی کشش پر زندہ ہیں۔ کبھی کبھی یہ سّیارے ایک دوسرے سے ٹکرا بھی جاتے ہیں جس کے نتیجے میں پورے نظامِ ارضی میں ہلچل مچ جاتی ہے اور زمین کا موسم بدل جاتا ہے۔


فنِ چمچہ گری کو سمجھنے کیلئے اِس واقعے کو غور سے پڑھیے ۔

ایک نواب صاحب ایک دن بہت اچّھے موڈ میں تھے اُس دن دستر خوان پر بیگن کا سالن آیا۔ نواب صاحب نے پہلا لقمہ لیا اور بیگن کی تعریف میں فرمایا :

"واہ بیگن بھی کیا لذیذ غذا ہے"۔

ایک درباری نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے فوراً کہا "جی ہاں سرکار یہ تو تمام ترکاریوں کا بادشاہ ہے اسی لیے اِسکے سر پر تاج ہوتا ہے۔ قدرت نے اِس میں ہر بیماری کا علاج رکھ دیا ہے یہ تو جنّت کی ترکاری ہے"۔

ایک دن نواب صاحب کا موڈ بہت خراب تھا اور اتفاقاً اُس دن پھر بیگن کا سالن پکا تھا۔ نواب صاحب نے لقمہ لیا اور ان کو غصّہ آگیا انہوں نے کہا :

"یہ کیا واہیات سالن ہے بھلا بیگن بھی کوئی کھانے کی چیز ہے؟"

فوراً وہی درباری پھر بول پڑا :

"ہاں سرکار یہ تو ایک بد مزہ سستی ترکاری ہے۔ اِسے تو جانور بھی منہ نہیں لگاتے یہ تو کئی بیماریوں کی جڑ ہے"۔

ایک صاحب سے رہا نہیں گیا۔ انہوں نے اس درباری سے کہا " یار آپ بھی عجیب آدمی ہیں اُس دن توآپ نے کہا کہ بیگن دافع الاَمراض ہے جنّت کی ترکاری ہے اور آج کہہ رہے ہیں کہ اِسے جانور بھی منہ نہیں لگاتا۔۔۔۔۔۔"

درباری نے بات کاٹتے ہوئے اُنہیں ڈانٹا اور کہا "میں سرکار کا ملازم ہوں بیگن کا نہیں ۔ سمجھے؟؟؟؟؟؟ "

بس یہی ہے چمچہ گری کا اُصول۔


بڑے صاحب یعنے Bossجس چیز کو جس وقت پسند کریں اُسے آسمان پر بٹھا دیجیے اور جس چیز کو ناپسند کریں اُسے بیگن میں ملا دیجیے ۔ بڑے صاحب کی ترقی میں آپ کی ترقی مضمر ہے۔اگر وہ لیڈر ہوں تو اُن کے ہر جلسے کو زیادہ سے زیادہ سامعین جمع کرکے کامیاب بنائیے۔جلسے کی صدارت کیلیے مائیک پر اصرار کیجیے ۔ اِس کے بغیر تو وہ یوں بھی نہ آتے اورنہ چندہ دیتے۔ مگر پھر بھی آپ اُنہیں جتنا انکساری دکھانے کا موقع دینگے اُتنی آپ کی وقعت بڑھے گی۔ اگلے دن اخبارات میں بڑے صاحب کی تصویر اور تقریر شائع ہونی چاہیے۔ اِس کیلئے آپ کو ہر صحافی کو وقتاً فوقتاً چائے یا کھانے پر بلاتے رہنا چاہئے۔

کامیاب چمچہ گری کیلئے اَنا زہرِقاتل ہے۔آپ کو خوامخواہ جذباتی یا حسّاس ہونے کی ضرورت نہیں ۔بڑے صاحب چاہے سب کے سامنے جھڑک دیں لاکھ بے عزّت کریں استقامت اور صبرکا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیجیے کہ:

مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے

کہ چمچہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے


دیکھا یہ گیا ہے کہ غصیلی بیویوں کو منانے کا فن جاننے والے شوہروں میں چمچہ گری کے بہترین جوہر پائے جاتے ہیں کیونکہ بیوی میں خوبیا ں تلاش کرنا اُتنا ہی مشکل ہے جتنا اپنے اندر کمزوریاں تلاش کرنا ۔ اسلئے چمچہ گری میں مہارت حاصل کرنا ہوتو اپنی بیوی کو منانے کا فن سیکھیے ۔ اُسکی وہ وہ خوبیاں اسکے سامنے بیان کیجیے جو نہ کبھی اُسمیں تھیں نہ ہیں اور نہ کبھی ہو سکتی ہیں۔لیکن تعریف کرنا بھی ایک فن ہے اگر سلیقے سے نہ کی جائے تو وہ خوشامد کہلاتی ہے۔ اگرچہ کہ خوشامد چمچہ گری کا لازمی حصّہ ہوتی ہے لیکن کامیاب چمچہ وہی ہوتا ہے جو خوشامد کو محسوس ہونے نہیں دیتا۔ جیسے ایک دفتر میں نیا افسر آیااس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت سخت اور اصول پسند ہے ۔ جھوٹ ، خوشامد اور چمچہ گری کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ تمام چمچوں نے مل کر اُسکا استقبالیہ دیا۔ اور ایک نے کھڑے ہوکر تقریر کی کہ"یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم کو پہلی بارایک ایسے افسر ملے ہیں جو اصول پسند ہیں جھوٹ اور خوشامد سے نفرت کرتے ہیں اب ہمیں اپنے مسائل ان تک پہنچانے کیلئے درمیا ن میں کسی چمچے کی ضرورت نہیں پڑے گی"۔ افسر بے حد خوش ہوا اور اپنی صدارتی تقریر میں کہنے لگا "مجھے خوشی ہے کہ آپ لوگ مجھے اچّھی طرح جان گئے ہیں اب بتائیے آپ لوگوں کے مطالبات کیا ہیں"


چمچہ گری اور خوشامد پسندی میں بڑا فرق ہے۔ خوشامد پسندی سے چھوٹے چھوٹے کام نکلتے ہیں۔ کام ایسا کیجیے کہ بڑے صاحب سب کے سامنے آپ کی تعریف کریں جیسے اُن کے خلاف افواہ پھیلایئے پھر ہر اخبار رسالے اور جلسے میں زبردست دفاع کیجیے ۔ افطار پارٹی کیجیے اور اُن کو کھجور پیش کرتے ہوئے تصویر لیجیے اور سارے اخبارات کو بھیجیے ۔ یاد رہے بعض وقت کھجور پیش کرتے وقت یا پھول پہناتے وقت کیمرہ مین تصویر لینے میں دیر کر دیتا ہے۔ کھجور یا ہار کو ہاتھوں میں رہنے دیجیے بھلے بڑے صاحب بوکڑ کی طرح سر جھکائے آگے بڑھ چکے ہوں۔ اُنہیں اُس وقت تک اُسی طرح کھڑے رہنے دیجیے جب تک کیمرہ مین تصویر نہ لے لے۔

چمچہ گری میں نہ کوئی دوست ہوتا ہے نہ دشمن۔سب سے دوستی بنائے رکھیے ۔ ورنہ قانون کی زد میں آنے والا تو پھر بھی سنبھل سکتا ہے لیکن چمچوں کی زد میں آنے والا کبھی نہیں سنبھلتا۔ پورا کیرئیرصدّام حسین ہو جاتا ہے۔کیونکہ اِس لڑائی میں لاٹھی یاپستول استعمال نہیں ہوتے بلکہ جو صحیح چمچے ہوتے ہیں وہ ایسی لڑائی سے بہت دور رہتے ہیں ۔ یاد رکھیے چمچوں کا کام لڑانا ہے نہ کہ خود لڑنا۔ اگر آپ غصّے میں کسی کا کالر پکڑ لینے کا مزاج رکھتے ہیں تو آپ نہ اچّھے چمچے بن سکتے ہیں نہ ترقی کرسکتے ہیں۔

اِس لڑائی میں جو ہتھیاراستعمال ہوتاہے اس کا نام "پروپیگنڈا"ہے۔ یہ نیوکلیر بم سے زیادہ خطرناک ہوتاہے۔ اسلئے کسی چمچے کو کمزور مت جانیے ۔ بس خیال رہے کہ بڑے صاحب سے کبھی دشمنی نہ ہو۔ بڑے صاحب جو خود بھی آگے کسی کے چمچے ہوتے ہیں جتنا ترقی کرتے جاتے ہیں اُن کے کان اتنے ہی کچّے ہوتے جاتے ہیں۔ اسلئے اِس سے پہلے کہ کوئی ان کے کان بھرنا شروع کرے آپ انکو ہر ایک کے بارے میں خبریں پہنچاتے رہیے ۔اپنا امیج درست رکھنے کیلیے یہ ضروری ہے کہ آپ دوسروں کے بارے میں خود افواہیں پھیلائیے اور بڑے صاحب کے سامنے ان لوگوں کا دفاع کیجیے تاکہ جب وہ آپ کی شکایت لے کر دربار میں پہنچیں تو خود بخود ان کا پتّہ کٹ جائے۔

ان لوگوں سے دور رہیے جو بڑے صاحب کی نظر میں کھٹکتے ہیں۔ نہ انکی محفل میں شرکت کیجیے نہ انہیں اپنی کسی محفل میں شریک کیجیے ۔ جن قدامت پسندوں کو چمچہ گری کا فن نہیں آتا ان کی سزا یہ ہوتی ہے کہ ہر بڑے آفس یا سرکل میں ان کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔اپنے کام وہ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر دھکّے کھاتے ہوئے کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے اصول پسند اپنا جمہوری حق حاصل کرنے کیلیے زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتے ہیں کہ ا ی میل یا اخبار کے ذریعے اپنا احتجاجی خط شائع کروالیتے ہیں جسکے پڑھنے والے یاتو وظیفہ یاب بوڑھے ہوتے ہیں یا پھر وہ کلرک ذہن کے گروہ جو چائے خانوں کے اطراف گھنٹوں گروپ بنائے کھڑے رہتے ہیں۔ایسے لوگوں کو جب حق کیلیے لڑنے کا بخار کچھ زیادہ زور مارتا ہے تو بے چارے چندہ کرکے ایک آدھ جلسہ بھی کر لیتے ہیں لیکن سارا بخار اُس وقت اتر جاتا ہے جب جلسہ تو کامیاب ہوجاتا ہے لیکن چندہ کم پڑ جاتا ہے اور خرچ زیادہ ہوجاتا ہے۔اگر بات بگڑ جائے اور تھانے میں طلبی ہوجائے تو اِن حق کے مجاہدین کی حالت عبرتناک ہوتی ہے۔ گھر میں بیوی کی گالیاں پڑتی ہیں اور باہر دوست کنّے کاٹ کر نکل جاتے ہیں۔مشکل کشائی کیلیے کسی نہ کسی چمچے کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے جو بیچ میں آکر معاملہ رفع دفع کروا دیتا ہے۔

چمچے دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ جس طرح عشق کیا نہیں جاتا ہوجاتا ہے اسی طرح پہلی قسم کے چمچے وہ ہوتے ہیں جو چمچہ گری ارادتاً نہیں کرتے بلکہ ان سے ہوجاتی ہے۔محبت کی طرح پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ کب اور کیسے ہوگئی۔ ان کو آپ پارٹ ٹائم چمچے کہہ سکتے ہیں۔یہ زیادہ تر آفسوں میں ہوتے ہیں۔

دوسری قسم فُل ٹائم چمچوں کی ہوتی ہے۔جہاں تک پارٹ ٹائم چمچہ گری کا تعلق ہے یہ کسی بھی شریف انسان سے سرزد ہو سکتی ہے۔ اسلئے کسی چمچے پر لعن طعن کرنے سے پہلے سوچ لیجیے کہ یہ وقت سب پر آتاہے جب ہر شریف آدمی کبھی مصلحتاً تو کبھی مجبوراً تھوڑی بہت چمچہ گری کر ہی لیتا ہے۔ اسکے بغیر آپ نہ سیاسی جماعت میں ترقی کر سکتے ہیں نہ دینی جماعتوں میں۔نہ مسجد کی انتظامی کمیٹیاں اس کے بغیر چلتی ہیں نہ انجمنیں، جلسے اور مشاعرے اور نہ ہی "مدرسے"۔

اسکے بغیر نہ سرکاری اردو اکیڈیمیاں چلتی ہیں نہ وہ آپ کی کتابیں شائع کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ چمچوں کو پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی چمچے سے پوچھیے کہ کیا آپ چمچہ گری کرتے ہیں وہ انکار کرے گا۔ ضروری نہیں کہ ہر چمچہ صورت سے پہچانا جائے۔ چمچہ ہونا اور بات ہے اور چمچہ لگنا اور بات ۔


دیکھا یہ گیا ہے کہ اسکول کی عمر سے ہی جو بچّے مانیٹر بننے کا تجربہ رکھتے ہیں اور ہمیشہ اول آتے ہیں وہ بڑے ہوکر سمجھدار چمچے نکلتے ہیں۔ ساتھیوں کی ٹیچروں سے شکایتیں کرکے انہیں پِٹوا دینا، جھنڈا وندن میں آگے آگے رہنا، ٹیچروں سے گُڈ بوائے زیادہ سے زیادہ سننے کا شوق رکھنا، اُن کو دوڑ دوڑ کر پان یا سگریٹ لاکر دینا ۔ یہی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو بڑے ہوکر ایک کامیاب چمچہ بننے میں مدد کرتی ہیں اس لیے ضرورت اِس بات کی ہے کہ اسکولوں سے ہی اِسکی تربیت پر زور دیا جائے۔

جس طرح ہم ادب برائے ادب کے مخالف ہیں اُسی طرح چمچہ گری برائے چمچہ گری کے بھی مخالف ہیں ادب برائے مقصد کی طرح چمچہ گری بھی برائے مقصد ہونی چاہیے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے