65a854e0fbfe1600199c5c82

دس منگھڑت روایات


🔬 دس منگھڑت روایات 🔬

عوام میں بہت سی ایسی روایات مشہور ہیں جن کا کوئی معتبر ثبوت نہیں ملتا، ذیل میں ایسی دس منگھڑت روایات ملاحظہ فرمائیں:

روایت 1️⃣: حضور اقدس ﷺ ایک بار تشریف فرما تھے کہ آپ ﷺ کے پاس سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا، اسے دیکھ کر حضور اقدس ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا  کہ اے اللہ کے رسول! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے، آپ پھر بھی رو رہے ہیں! تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اس لیے رو رہا ہوں کہ میرا ایک امتی کلمہ کے بغیر جہنم میں چلا گیا۔‘‘


▪ *روایت 2️⃣:* اللہ تعالیٰ کی معرفت میرا سرمایہ ہے اور یقین میری قوت ہے۔

☀ الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة:

24- حديث: «المعرفة رأس مالي، والعقل ديني، والحسب أساسي،  والشوق مركبي، وذكر الله أنسي، والثقة كنزي، والحزن رفيقي، والعلم سلاحي، والصبر ردائي، والرضا غنيمتي، والفقر فخري، والزهد حرفتي، واليقين قوتي، والصدق شفيعي، والطاعة حسبي، والجهاد خلقي، وقرة عيني الصلاة». ذكره القاضي عياض، وآثار الوضع عليه لائحة.


*روایت 3️⃣:* کلمہ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ مدّ کے ساتھ یعنی کھینچ کر پڑھنے سے چار ہزار کبیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

☀ لسان الميزان:

8163- (ز): نعيم بن تمام. عن أنس. وعنه الحسن بن إسماعيل اليمامي. له حديث أخرجه ابن النجار في «الذيل» في ترجمة أبي القاسم عبد الله بن عمر بن محمد الكلوذاني المعروف بابن داية من روايته عن يونس بن طاهر بن محمد عَن عَبد الرحمن بن محمد بن حامد عَن مُحَمد بن عبد الوارث بن الحارث بن عبد الله بن عبد الملك الأنصاري الزاهد عن الحسن. ولفظ المتن: «من قال: لا إله إلا الله ومدها هدمت له ذنوب أربعة آلاف كبيرة». هذا حديث باطل، وأظنه يغنم بن سالم الآتي في آخر الحروف [8670]، تصحف اسمه واسم أبيه كالذي بعده. والله أعلم.


*روایت 4️⃣:* میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کرام کی طرح ہیں۔

☀ المصنوع في معرفة الحديث الموضوع (الموضوعات الصغرى):

196- حَدِيثُ: «عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ» لَا أَصْلَ لَهُ كَمَا قَالَ الدُّمَيْرِيُّ وَالزَّرْكَشِيُّ وَالْعَسْقَلانِيُّ.


*روایت 5️⃣:* دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ ان الفاظ کو حدیث قرار دینا درست نہیں، البتہ قرآن وسنت کی نصوص سے اس کا مفہوم ثابت ہے۔

الموضوعات للصغاني:

106- وَمِنْهَا قَوْلُهُمْ: «الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ».

☀ المصنوع في معرفة الحديث الموضوع (الموضوعات الصغرى):

135- حَدِيثُ: «الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الآخِرَةِ» قَالَ السَّخَاوِيُّ: لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ.

☀ الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى:

205- حَدِيثُ: «الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ» قَالَ السَّخَاوِيُّ: لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ، مَعَ إِيرَادِ الْغَزَالِيِّ لَهُ فِي «الْإِحْيَاءِ». قُلْتُ: مَعْنَاهُ صَحِيحٌ يُقْتَبَسُ مِنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: «مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ».


*روایت 6️⃣:* ’’تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللهِ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپناؤ۔ واضح رہے کہ یہ الفاظ حدیث کے نہیں، اس لیے اس کو حدیث نہیں سمجھنا چاہیے۔ البتہ جہاں تک اس قول کے صحیح یا غلط ہونے کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، البتہ اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس قول کا صحیح مطلب بھی بیان کیا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض بزرگوں نے اس جملے کو صحیح استعمال فرمایا ہے، جبکہ اس قول کا غلط اور غیر شرعی مطلب بھی مراد لیا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض ملحدین نے اپنے غلط عقائد کے لیے اس کا سہارا لیا ہے۔

☀ مدارج السالكين بين منازل إياك نعبد وإياك نستعين:

وَهَذَا مَوْضِعٌ يَتَوَارَدُ عَلَيْهِ الْمُوَحِّدُونَ وَالْمُلْحِدُونَ، فَالْمُوَحِّدُ يَعْتَقِدُ: أَنَّ الَّذِي أَلْبَسَهُ اللهُ إِيَّاهُ هُوَ صِفَاتٌ جَمَّلَ اللهُ بِهَا ظَاهِرَهُ وَبَاطِنَهُ، وَهِيَ صِفَاتٌ مَخْلُوقَةٌ أُلْبِسَتْ عَبْدًا مَخْلُوقًا، فَكَسَا عَبْدَهُ حُلَّةً مِنْ حُلَلِ فَضْلِهِ وَعَطَائِهِ. وَالْمُلْحِدُ يَقُولُ: كَسَاهُ نَفْسَ صِفَاتِهِ، وَخَلَعَ عَلَيْهِ خِلْعَةً مِنْ صِفَاتِ ذَاتِهِ، حَتَّى صَارَ شَبِيهًا بِهِ، بَلْ هُوَ هُوَ، وَيَقُولُونَ: الْوُصُولُ هُوَ التَّشَبُّهُ بِالْإِلَهِ عَلَى قَدْرِ الطَّاقَةِ، وَبَعْضُهُمْ يُلَطِّفُ هَذَا الْمَعْنَى، وَيَقُولُ: بَلْ يَتَخَلَّقُ بِأَخْلَاقِ الرَّبِّ، وَرَوَوْا فِي ذَلِكَ أَثَرًا بَاطِلًا «تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللهِ». وَلَيْسَ هَهُنَا غَيْرَ التَّعَبُّدِ بِالصِّفَاتِ الْجَمِيلَةِ، وَالْأَخْلَاقِ الْفَاضِلَةِ الَّتِي يُحِبُّهَا اللهُ، وَيَخْلُقُهَا لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ، فَالْعَبْدُ مَخْلُوقٌ، وَخِلْعَتُهُ مَخْلُوقَةٌ، وَصِفَاتُهُ مَخْلُوقَةٌ، وَاللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى بَائِنٌ بِذَاتِهِ وَصِفَاتِهِ عَنْ خَلْقِهِ، لَا يُمَازِجُهُمْ وَلَا يُمَازِجُونَهُ، وَلَا يَحِلُّ فِيهِمْ وَلَا يَحِلُّونَ فِيهِ، تَعَالَى اللهُ عَنْ ذَلِكَ عُلُوًّا كَبِيرًا. (فَصْلٌ: الدَّرَجَةُ الثَّانِيَةُ مُشَاهَدَةُ مُعَايَنَةٍ)


*روایت 7️⃣:* جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں عید گزارے گا تو وہ جنت میں حضور اقدس ﷺ کے نکاح یا ولیمے میں شریک ہوگا۔ 


*روایت 8️⃣:* حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک بار حضور اقدس ﷺ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ زیادہ محبوب ہیں یا قرآن کریم؟ تو حضور اقدس ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ: ’’میں زیادہ محبوب ہوں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام (یعنی قرآن کریم) مجھ پر نازل فرمایا ہے۔ پھر حضرت جبریل نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ زیادہ محبوب ہیں یا میں؟ تو حضور اقدس ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ: ’’میں زیادہ محبوب ہوں کیوں کہ آپ کو میرے پاس بھیجا جاتا ہے۔‘‘ پھر پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو آپ زیادہ محبوب ہیں یا اپنا دین؟ تو حضور اقدس ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ کو اپنا دین مجھ سے زیادہ محبوب ہے کیوں کہ مجھے دین کے لیے بھیجا گیا ہے۔‘‘


*روایت 9️⃣:* ایک عورت حضور اقدس ﷺ کے پاس ایک دودھ پیتا بچہ لے کر آئی اور عرض کیا کہ اسے اپنے ساتھ جہاد کے لیے لے جائیں۔ تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ:’’یہ جہاد میں کس کام آئے گا؟‘‘ تو عورت نے جواب دیا کہ اسے اپنے لیے ڈھال بنالیں۔


*روایت 🔟:* جس کھانے میں کوئی عالم شریک ہوجائے تو اُس کے شرکاء سے اُس کھانے کا حساب معاف ہوجاتا ہے۔


❄️ *تبصرہ:* 

مذکورہ دس روایات کا حضور اقدس ﷺ اور حضرات صحابہ کرام سے کوئی معتبر ثبوت نہیں ملتا، اس لیے ان کو حدیث سمجھنے اور حدیث کہہ کر بیان کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ 


▪ *فائدہ:* واضح رہے کہ جن جن روایات سے متعلق حضرات اہلِ علم کی تصریحات میسر آئیں کہ یہ روایات ثابت نہیں تو ان کے بارے میں ان حضرات کی عبارات بھی ذکر کردی گئی ہیں، جن سے اُن روایات کا حکم بخوبی واضح ہوجاتا ہے، باقی جن روایات سے متعلق ایسی صراحت نہیں ملی تو ان کو یوں ہی چھوڑ دیا گیا ہے، البتہ وہ بھی غیر ثابت ہی ہیں۔ مزید تفصیل آگے ذکر کی جارہی ہے۔


❄️ *احادیث بیان کرنے میں شدید احتیاط کی ضرورت:*

احادیث کے معاملے میں بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی بات کی نسبت حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ کی طرف کرنا یا کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس کے لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آجکل بہت سے لوگ احادیث کے معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے، بلکہ کہیں بھی حدیث کے نام سے کوئی بات مل گئی تو مستند ماہرین اہلِ علم سے اس کی تحقیق کیے بغیر ہی اس کو حدیث کا نام دے کر بیان کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں بہت سی منگھڑت روایات عام ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بے اصل اور غیر ثابت روایت بیان کرکے حضور اقدس ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا شدید گناہ اپنے سر لے لیا جاتا ہے۔ 

ذیل میں اس حوالے سے دو احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے اور اس سے اجتناب کیا جاسکے:

1️⃣ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘

110- حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «...وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».

2️⃣ صحیح مسلم میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو، چنانچہ جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘

2- عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضى الله عنه يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لا تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ».

ان وعیدوں کے بعد کوئی بھی مسلمان منگھڑت اور بے بنیاد روایات پھیلانے کی جسارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر تحقیق کیے حدیث بیان کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔


❄️ *غیر ثابت روایات سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:*

بندہ نے ایک روایت کے بارے میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ روایت ثابت نہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی حوالہ دیجیے، تو بندہ نے ان سے عرض کیا کہ: حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا دیا جاسکتا ہے، اب جو روایت احادیث اور سیرت کی کتب میں موجود ہی نہ ہو تو اس کا حوالہ کہاں سے پیش کیا جائے! ظاہر ہے کہ حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا ہوتا ہے، روایت کے نہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ روایت موجود نہیں، باقی جو حضرات اس روایت کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اصولی طور پر حوالہ اور ثبوت انھی کے ذمے ہیں، اس لیے انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے، تعجب کی بات یہ ہے کہ جو حضرات کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرتے ہیں اُن سے تو حوالہ اور ثبوت طلب نہیں کیا جاتا لیکن جو یہ کہے کہ یہ ثابت نہیں تو اُن سے حوالے اور ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے! کس قدر عجیب بات ہے یہ! ایسی روش اپنانے والے حضرات کو اپنی اس عادت کی اصلاح کرنی چاہیے اور انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے کہ جو کسی روایت کو بیان کرتے ہیں یا اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

البتہ اگر حوالہ سے مراد یہ ہو کہ کسی محدث یا امام کا قول پیش کیا جائے جنھوں نے اس روایت کے بارے میں ثابت نہ ہونے یا بے اصل ہونے کا دعویٰ کیا ہو تو مزید اطمینان اور تسلی کے لیے یہ مطالبہ معقول  اور درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر روایت کے بارے میں کسی محدث اور امام کا قول ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ گزرتے زمانے کے ساتھ نئی نئی منگھڑت روایات ایجاد ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مستند عالم تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ یہ روایت یا واقعہ ثابت نہیں اور وہ اس کے عدمِ ثبوت پر کسی محدث یا امام کا قول پیش نہ کرسکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کا یہ دعویٰ غیر معتبر ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کسی امام یا محدث نے اس روایت کے بارے میں کوئی کلام ہی نہ کیا ہو، بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہو، ایسی صورت میں بھی اس روایت کو ثابت ماننے والے حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روایت کا معتبر حوالہ اور ثبوت پیش کریں، اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ انھی حضرات سے ثبوت اور حوالہ کا مطالبہ کریں۔ اور جب تحقیق کے بعد بھی اُس روایت کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ ملے تو یہ اس روایت کے ثابت نہ ہونے کے لیے کافی ہے۔

واضح رہے کہ یہ مذکورہ زیرِ بحث موضوع کافی تفصیلی ہے، جس کے ہر پہلو کی رعایت اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، اس لیے صرف بعض اصولی پہلوؤں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔


⬅️ *ایک اہم نکتہ:*

منگھڑت اور بے اصل روایات سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کوئی روایت واقعتًا بے اصل، منگھڑت اور غیر معتبر ہے تو وہ کسی مشہور خطیب اور بزرگ کے بیان کرنے سے معتبر نہیں بن جاتی۔ اس

اہم نکتے سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوجاتی ہے کہ جب انھیں کہا جائے کہ یہ روایت منگھڑت یا غیر معتبر ہے تو جواب میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیسے منگھڑت ہے حالاں کہ یہ میں نے فلاں مشہور بزرگ یا خطیب سے خود سنی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی حدیث کے قابلِ قبول ہونے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں بن سکتی کہ میں نے فلاں عالم یا بزرگ سے سنی ہے، بلکہ روایت کو تو اصولِ حدیث کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ غلطی تو بڑے سے بڑے بزرگ اور عالم سے بھی ہوسکتی ہے کہ وہ لاعلمی اور انجانے میں کوئی منگھڑت روایت بیان کردیں، البتہ ان کی اس غلطی اور بھول کی وجہ سے کوئی منگھڑت اور غیر معتبر روایت معتبر نہیں بن جاتی، بلکہ وہ بدستور منگھڑت اور بے اصل ہی رہتی ہے۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

18 ربیع الثانی 1442ھ/ 4 دسمبر 2020


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے