65a854e0fbfe1600199c5c82

ایک مظلوم بہن کا خط

 *ایک خط اورعطیہ خداوندی سے انکار!*



٭٭٭٭

ایک مظلوم بہن کا خط ملاحظہ کیجیے:


"میں شادی شدہ اور صاحبِ اولاد خاتون ہوں۔ خاوند خرچ کے نام پر ایک روپیہ تک نہیں دیتے۔ بیمار پڑجاؤں تو علاج بھی میرے اپنے ذمہ ہوتا ہے۔ والد مرحوم کا ترکہ موجود ہے جس میں میرا حصہ لاکھوں کی مالیت کا بنتا ہے، لیکن اس پر بھائی قابض ہیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے زبان کھولی اور اپنے مالی حالات بتا کر حصے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے طویل مہلت مانگی کہ اتنے سال صبر کرلو، اس کے بعد آپ کا حصہ دے دیں گے۔ جب وعدے کی میعاد پوری ہوگئی تو میں انتظار کرتی رہی کہ وعدہ وفا کریں گے۔ طویل انتظار کے بعد ڈرتے ڈرتے انھیں فون کیا اور یاد دہانی کرائی تو خفا ہوگئے اور کہنے لگے کہ یا تو حصہ لے لو یا ہم سے رشتہ رکھو۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارا گھرانہ سکہ بند دین دار گھرانا ہے۔ والد صاحب معروف عالم دین تھے۔ پورے علاقے میں اُن کا نام ہے۔ اگر میں عدالت کا رخ کروں یا باہر کے لوگوں کو بتاؤں تو خاندان بلکہ پورے دینی طبقے کی بدنامی ہے۔ میں بس صبر کی سل چھاتی پر رکھ کر خاموش بیٹھی ہوں۔ (ایک مظلوم بیٹی)"

٭

جواب:

 برا مت مانیے گا مگر سچی اور دوٹوک بات تو یہ ہے کہ آپ کے بھائی بڑے ہی بےغیرت اور گویا زمانہ جاہلیت کی یادگار ہیں۔

زمانۂ جاہلیت کی یادگار یوں کہ اسی دور میں عورتوں کو میراث سے محروم رکھا جاتا تھا۔


اب دوسری دو ٹوک بات سنیے:

یہ جو بہنیں، بھائیوں کی ناراضی سے اور دنیا والوں کی باتوں سے ڈر کر… بظاہر بے نیازی اور پیار جتاتے ہوئے اپنا حصہ لینے سے انکار کر دیتی ہیں۔ یہ بھی کوئی ثواب کا کام نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کو ٹھکرانے کے مترادف ہے۔


کسی بھی وارث کو یہ حق نہیں کہ وہ عطیہ خداوندی لینے سے انکار کردے۔ اس لیے کہ حصہ وراثت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقسیم کردہ  ہے… حتی کہ اگر کوئی وارث اس عطیہ خداوندی کو لینے سے انکار کرے تو اول لینے پر مجبور کیا جائے گا، نہ مانے تو قاضی اس کا حصہ اس کے گھر رکھوادے گا۔


اس لیے ترکہ ضرور لیا جائے۔


ہاں پھر قبضے میں لینے کےبعد اگر آپ سمجھیں کہ فلاں بھائی یا بہن ضرورت مند ہے اور مجھے ضرورت نہیں تو کچھ عرصے کے بعد اسے د ےدیں، لیکن لیں ضرور، تا کہ ایک غلط رسم کو رواج دینے میں آپ کا حصہ نہ ہو۔


ویسے آج کل کے ہونے والے ایموشنلی بلیک میلنگ کے ڈرامے (کہ حصہ مانگ رہی ہو تو ہم سے تعلق ختم سمجھو) کو دیکھتے ہوئے  علماء کرام مشورہ دیتے ہیں کہ لے کر فورا بھی نہ دیں بلکہ سال چھے ماہ بعد فیصلہ کریں کسی کو دینے کا۔


امید ہے کہ تب تک ایموشنلی ڈرامے کے اثرات سے بہنیں نکل چکی ہوں گی اور تب دیں گی تو خالص اللہ کے لیے۔ 🙂


اور ہم دیکھتے ہیں کہ سال چھے ماہ بعد کون دیتا ہے؟ 🙃

٭

 بہ شکریہ محمد قیصر شہزاد

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے