65a854e0fbfe1600199c5c82

جب عورت اپنے ہی گھر میں محفوظ نہ ہو؟

 جب عورت اپنے ہی گھر میں محفوظ نہ ہو؟

===================


ہمارے ہاں دین سے وابستہ بعض حضرات اس جملے سے نہایت برافروختہ ہوتے ہیں کہ "میرے شوہر میرا ریپ کرتے ہیں" اور پھر اس جملے کی "درست" تاویل و تشریح کرنے کو مختلف احادیث سے استشہاد فرماتے دکھائی دئیے جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام نہ سہی لیکن کئی خواتین کی طرف سے یہ جملہ ایک بھیانک حقیقت کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ یہ جملہ ہمارے معاشرے کی وہ تلخ حقیقت ہے جس کا موم بتی مافیا کی طرف سے کیے گئے غیر صائب استعمال نے سارا وزن ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ 


برصغیر کے معاشرے میں آج بھی حقِ مباشرت کے نام پر شوہر اپنی بیوی کا جیسا استحصال کرتے ہیں اس کو سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کی شناعت صرف اور صرف اس وقت محسوس کی جاسکتی ہے جب انسان اس کو اپنی عزیز خواتین پر رکھ کر سوچے۔سوالات کے ماخذ کی تفصیلات میں جائے بغیر لوور مڈل کلاس سے لیکر ایلیٹ کلاس تک کی اکثر خواتین "نامعلوم" شناخت کے ساتھ "مجموعات برائے خواتین فقط " میں ایسے تکلیف دہ اور ہوشُربا سوالات پوچھتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ آج بھی ہمارے معاشرے کا مرد اپنی درندگی میں کسی جنسی حیوان سے کم نہیں۔


نامعلوم شناخت کے ساتھ ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ " میرے شوہر بہت اچھے ہیں، میرا بہت خیال رکھتے ہیں، ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں، لوگ ہمیں پرفیکٹ کپل سمجھتے ہیں لیکن میرے شوہر جنسی تعلقات اور پورن موویز کے اس قدر حریص ہیں کہ میرے ایامِ ماہواری میں بھی وہ خود پر کوئی روک نہیں رکھتے او ر پورن موویز دیکھ کر مجھے مجبور کرتے ہیں کہ میں بغیر رکاوٹ (condom) کے ان کو اپنے منہ میں انزال (ejaculate) کرواؤں۔ مجھے اس چیز سے بہت گھِن آتی ہے اور ہر دفعہ قے کرتی ہوں لیکن وہ مجھ پر زبردستی کی حد تک زور ڈالتے ہیں اور ایسے میں مجھے لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی شخص ہیں جس کے ساتھ میں اتنے سالوں سے رہ رہی ہوں۔ بتائیے میں کیا کروں؟ میرے ایامِ ماہواری کے دن آتے ہی میرے اوپر شدید خوف کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے اور میں گھر سے باہر میکے یا کسی دوست کے ہاں رات گزارنے کا سوچنے لگ جاتی ہوں۔"


ایک دوسری خاتون نامعلوم شناخت کے ساتھ سوال کرتی ہیں کہ " ہمارے چوتھے بچے کی پیدائش کے بعد میرے شوہر زبردستی میرے ساتھ عملِ قوم لوط کرتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ بچوں کی پیدائش کے بعد تمہاری مقامِ مخصوص میں وہ لذت نہیں رہی۔ میرے گھر میں گزرنے والی ہر رات میرے لیے خوف کا باعث ہوتی ہے کہ نجانے کس روز میرے شوہر کو تعلقاتِ زن و شو کی خواہش بیدار ہوجائے اور پھر مجھے اذیت و ذلت سے گزرنا پڑے۔ بتائیے میں کیا کروں؟"


ایک لیڈی ڈاکٹر بتاتی ہیں کہ دو سے تین مہینے میں ایک دفعہ ان کے پاس ایسا کیس ضرور آتا ہے جہاں شادی کی پہلی رات کی دلہن کو صبح نہایت نازک حالت میں لایا جاتا ہے کہ ان کے میاں صاحب سے پہلی رات قابو نہیں ہوا اور انہوں نے حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے زور و زبردستی کی اور بچی کو زخمی کردیا جبکہ میڈیکل معائنے کے بعدبعض دفعہ تشخیص ہوتا ہے کہ ایسی بچیاں ویجینل بلاکیج نامی ایک پیدائشی میڈیکل پرابلم کا شکار ہوتی ہیں جہاں ان کی اندامِ نہانی کا منہ بند ہوتا ہے اور بعد از آپریشن کی اس کو کھول کر نارمل کیا جاتا ہے۔ بند منہ کے سبب دخول کی کوشش صرف تکلیف، بلیڈنگ اور انفیکشن کا سبب ہی بن سکتی ہے لیکن بعض حضرات جنسی خواہش میں اس قدر پاگل ہورہے ہوتے ہیں کہ اس وقت کچھ سوچنے سمجھنے سے معذور ہوکر اپنے جیون ساتھی کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔


ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ میرے سسر مجھے بہت عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن ان کا گھر میں اتنا رعب و داب ہے کہ میری ہمت نہیں پڑتی کہ میں اپنی ساس اور شوہر کو کچھ کہوں۔ اپنی والدہ سے ذکر کیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ان کو اگنور کرو ۔ ڈولی میں گئی ہو اب صرف اَرتھی میں واپس آنا۔


ایک خاتون بتاتی ہیں کہ میری ساس بہت اچھی ہیں، میرا بہت خیال رکھتی ہیں۔ شادی کے ایک مہینے بعد میرے شوہر نے مجھے مارنا شروع کردیا۔ میں نے اپنی ساس سے شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ بیٹی یہ کوئی بڑی بات نہیں برداشت کرلو۔ تمہارے سسر تو آج تک مجھ پر ہاتھ اٹھاتے ہیں لیکن پھر بھی دیکھو ہماری کتنی "اچھی" زندگی گزر گئی۔ 


اور ایسے لاتعداد سوالات جن کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ تمام نہ سہی لیکن ہمارے معاشرے کا ایک معتدد بہ طبقہ آج بھی کسی قدر پست ذہنیت کے ساتھ جی رہا ہے۔ اور حیرت و افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے کئی سوالات مختلف خواتین کی طرف سے دہرائیں جاتے ہیں گویا یہ ہمارے معاشرے کے اکا دکا کیسز نہیں بلکہ ایک معتدد بہ طبقہ ان نفسیاتی عوارض کا شکار ہے۔ ان میں سے کئی خواتین کا کہنا تھا کہ ہم نے جب بھی اپنے شوہروں سے علیحدگی کا سوچا تو گھر والوں نے صاف منع کردیا کہ علیحدگی کی صورت میں ہمارے گھر میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اب بتائیے کہ ہم کیا کریں؟


اسی سبب میرا سختی سے ماننا ہے کہ اپنی بیٹیوں کو اچھی تربیت کے ساتھ بھرپور عصری تعلیم دلوائیے۔ ان کو بتائیے اور سکھائیے کہ حاصل کی جانے والی تعلیم کا پہلا اور بنیادی مقصد اپنے گھر کی عمدہ دیکھ بھال اور اپنے بچوں کی بہترین تربیت ہے اور خدانخواستہ ضرورت پڑنے پر یہی تعلیم تمہارے لیے معاشی خود مختاری کا سبب بھی بنے گی۔ یہ "ضرورت" بیوہ ہونے کی صورت میں بھی پڑ سکتی ہے اور مطلقہ ہونے کی صورت میں بھی۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ طلاق کا "دھبہ" ہونا ہے۔ طلاق یقیناً ناپسندیدہ چیز ہے لیکن حرام قطعی نہیں۔ اللہ انسانوں کے احوال اور فطرت سے سب سے زیادہ واقف ہے اور اسی سبب اس نے انسانوں کے لیے طلاق کا راستہ کھلا چھوڑا لیکن مقامِ افسوس کہ ہم انسانوں نے ہر دینی تعلیم کی طرح اس رخصت میں بھی تحریف کرکے اس کو گالی بنا چھوڑا۔ برِ صغیر پاک و ہند کے معاشرے میں ایک مطلقہ مرد کی شادی تو کسی کنواری لڑکی سے ہوسکتی ہے لیکن کسی کنوارے لڑکے کی شادی کسی مطلقہ عورت سے کرنے کے سوال پر ہی لڑکے کی ماں بہنوں کو غشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ عرب معاشرے میں پچھلے ۱۴۰۰ سالوں سے لیکر آج تک طلاق ایک عام سی چیز رہی ہے اور مطلقہ لڑکیوں کی شادی اسی آسانی سے ہوجاتی ہے جس آسانی سے کنواری لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ سے لیکر سیدنا علی و زبیر بن العوامؓ تک نے اپنی بیویوں کو طلاقیں دی ہیں۔ سیدنا زبیر ؓ اور سیدہ اسماء بنت ابی بکر میں طلاق ہوئی۔ سیدنا حسینؓ کی صاحبزادی سیدہ سکینہ بنت الحسینؓ نے بیوہ اور مطلقہ ہونے کے بعد یکے بعد دیگرے پانچ سے زیادہ نکاح کیے جس میں ان کا آخری نکاح ۵۸ سال کی عمر میں کیا۔ سیدنا علی بن الحسینؓ نے اپنی والدہ سلافہ کا نکاح از خود کروایا۔ بقول ابن حجر عسقلانی بعض روایات میں آتا ہے کہ سیدنا ابو سفیانؓ کا انتقال پہلے ہوگیا تھا اور سیدہ ھندؓ کا بعد میں ہوا تو لوگ سیدنا معاویہؓ کے پاس ان کی والدہ کے رشتے کےلیے پیغام بھیجا کرتے تھے۔ تاہم قوی قول سیدہ ہندؓ کے پہلے وفات پاجانے کا ہی ہے۔


لیکن ہمارے ہاں طلاق کو ایک گالی بنا کر اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو سسرال کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جہاں ان کی جائز طرفداری و حمایت کی جانی چاہیئے وہاں بھی صبر و برداشت کے نام پر "ظلم" پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہماری بچیاں جنسی حیوانوں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کو کہہ دیا جاتا ہے کہ "ڈولی میں جارہی ہو اَرتھی میں آنا۔" اس ہندوستانی معاشرت نے دین کی طرح ہماری خانگی زندگیوں کو بھی تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ 


میں جب بھی قرآن پڑھتا ہوں تو یہ احساس بہت شدت سے اجاگر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ عورت کا ذکر اس طور سے کیا ہے کہ مرد کو اس کا سرپرست بنا کر اس کے بارے میں ہدایات کی ہیں۔ یاد رکھیے سرپرست پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آپ کی بہن، بیٹی، بیوی اور ماں پر ہونے والے ظلم کے لیے آپ اللہ کے ہاں جوابدہ ہونگے۔ للہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھئے۔ اپنی بچیوں کو تعلیم دلوائیے۔ ان میں صحیح و غلط کا شعور پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو "صبر وتحمل کے مظاہرے" اور ظلم کے برداشت" کرنے میں فرق و تمیز بھی سکھائیے۔ ان کو بتائیے کہ اپنی خانگی زندگی کے سکون کے لیے صبر و تحمل کو اپنا شیوہ ضرور بنائیے لیکن جہاں بھی ظلم نظر آئے اس کو قطعی برداشت نہ کریں۔ ان کو یہ احساس و تحفظ دیجئے کہ ظلم کی صورت میں آپ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔


تحریر: محمد فھد حارث

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے