65a854e0fbfe1600199c5c82

دس بے بنیاد روایات

 


🔬 دس بے بنیاد روایات 🔬


عوام میں بہت سی ایسی روایات مشہور ہیں جن کا کوئی معتبر ثبوت نہیں ملتا، ذیل میں ایسی دس بے بنیاد روایات ملاحظہ فرمائیں:

▪ *روایت 1️⃣:* جب حضور اقدس ﷺ کے وصال کا وقت قریب آیا تو حضرت جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے، حضور اقدس ﷺ نے اُن سے پوچھا کہ میری امت کو بھی موت کے وقت ایسی تکلیف ہوگی جیسی کہ مجھے ہورہی ہے؟ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ: جی، اس سے بھی زیادہ تکلیف ہوگی۔ یہ سن کر حضور اقدس ﷺ کی مبارک آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ سے عرض کردیجیے کہ میری امت کی موت کی تکلیف بھی مجھے ہی دے دیں، تاکہ میری امت کو موت کے وقت کوئی تکلیف نہ پہنچے۔


▪ *روایت 2️⃣:* قیامت کے دن ایک شخص کو جنت میں جانے کے لیے صرف ایک نیکی کی ضرورت ہوگی، وہ شخص نیکی حاصل کرنے کے لیے اپنے رشتہ داروں، احباب اور ہر اُس شخص کے پاس جائے گا جس سے اس کو ایک نیکی ملنے کی امید ہوگی تاکہ وہ جنت میں چلا جائے، لیکن کوئی بھی اسے ایک نیکی دینے کے لیے تیار نہ ہوگا، اسی اثنا میں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوگی جس کے پاس صرف ایک ہی نیکی ہوگی، تو یہ شخص اُس ایک نیکی کے متلاشی شخص کو اپنی یہ ایک نیکی دے دے گا تاکہ یہ شخص جنت میں چلا جائے، جبکہ میں تو ایسے بھی صرف اس ایک نیکی کی وجہ سے جنت میں جا نہیں سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے ایثار کو دیکھ کر بہت خوش ہوجائے گا اور ان دونوں کو جنت میں داخل کردے گا۔ 


▪ *روایت 3️⃣:* ایک دفعہ ایک مشرک شخص رات کے وقت حضور اقدس ﷺ کا مہمان ہوا، رات کو اس کا پیٹ خراب ہوا جس کی وجہ سے بستر بھی ناپاک ہوگیا، صبح حضور اقدس ﷺ نے خود اپنے دستِ مبارک سے اس ناپاک بستر کو صاف کیا، چنانچہ وہ مشرک شخص یہ حسنِ سلوک دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔


▪ *روایت 4️⃣:* جس حاملہ عورت سے اس کا خاوند راضی ہو تو اس کو نماز پڑھنے والے، روزے دار، خشوع والے، اطاعت کرنے والے اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے شخص جیسا اجر ملتا ہے۔


▪ *روایت 5️⃣:* حاملہ عورت کو دردِ زہ پر اس قدر عظیم اجر ملتا ہے کہ جسے مخلوقات نہیں جان سکتی۔


▪ *روایت 6️⃣:* بچے کی ولادت سے ماں کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔


▪ *روایت 7️⃣:* بچے کو دودھ پلانے پر ماں کو ہر گھونٹ کے بدلے ایک نیکی یا ایک انسان کو زندہ کرنے کا اجر وثواب ملتا ہے۔


▪ *روایت 8️⃣:* جب ماں بچے کی وجہ سے رات کو جاگتی ہے تو اسے اللہ کے راستے میں ستر غلام آزاد کرنے کا اجر وثواب ملتا ہے۔


❄️ *فائدہ:* روایت نمبر 4، 5، 7 اور 8 کے بے بنیاد ہونے کی تصریح ’’اللآلئ المصنوعة‘‘ میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔


▪ *روایت 9️⃣:* تبلیغی گشت میں دعائیں ایسے قبول ہوتی ہیں جیسے بنی اسرائیل کے انبیاء کرام کی قبول ہوتی تھیں۔


▪ *روایت 🔟:* ’’اللہ سے ہوتا ہے، اللہ کے غیر سے نہیں ہوتا۔‘‘ یہ بول ایک بار بولنے سے ایک سال کی عبادت کا اجر نصیب ہوتا ہے۔


⬅️ *تبصرہ:* 

مذکورہ دس روایات بے بنیاد ہیں جن کا حضور اقدس ﷺ اور حضرات صحابہ کرام سے کوئی معتبر ثبوت نہیں ملتا، اس لیے ان کو بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔


❄️ *احادیث بیان کرنے میں شدید احتیاط کی ضرورت:*

احادیث کے معاملے میں بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی بات کی نسبت حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ کی طرف کرنا یا کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس کے لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آجکل بہت سے لوگ احادیث کے معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے، بلکہ کہیں بھی حدیث کے نام سے کوئی بات مل گئی تو مستند ماہرین اہلِ علم سے اس کی تحقیق کیے بغیر ہی اس کو حدیث کا نام دے کر بیان کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں بہت سی منگھڑت روایات عام ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بے اصل اور غیر ثابت روایت بیان کرکے حضور اقدس ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا شدید گناہ اپنے سر لے لیا جاتا ہے۔ 

ذیل میں اس حوالے سے دو احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے۔

1️⃣ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘

110- حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «...وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».

2️⃣ صحیح مسلم میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ:

’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو، چنانچہ جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘

2- عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضى الله عنه يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لا تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ».

ان وعیدوں کے بعد کوئی بھی مسلمان منگھڑت اور بے بنیاد روایات پھیلانے کی جسارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر تحقیق کیے حدیث بیان کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔


❄️ *غیر ثابت روایات سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:*

بندہ نے ایک روایت کے بارے میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ روایت ثابت نہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی حوالہ دیجیے، تو بندہ نے ان سے عرض کیا کہ: حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا دیا جاسکتا ہے، اب جو روایت احادیث اور سیرت کی کتب میں موجود ہی نہ ہو تو اس کا حوالہ کہاں سے پیش کیا جائے! ظاہر ہے کہ حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا ہوتا ہے، روایت کے نہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ روایت موجود نہیں، باقی جو حضرات اس روایت کے ثابت ہونے کا دعوی کرتے ہیں تو اصولی طور پر حوالہ اور ثبوت انھی کے ذمے ہیں، اس لیے انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے، تعجب کی بات یہ ہے کہ جو حضرات کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرتے ہیں اُن سے تو حوالہ اور ثبوت طلب نہیں کیا جاتا لیکن جو یہ کہے کہ یہ ثابت نہیں تو اُن سے حوالے اور ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے! کس قدر عجیب بات ہے یہ! ایسی روش اپنانے والے حضرات کو اپنی اس عادت کی اصلاح کرنی چاہیے اور انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے کہ جو کسی روایت کو بیان کرتے ہیں یا اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

البتہ اگر حوالہ سے مراد یہ ہو کہ کسی محدث یا امام کا قول پیش کیا جائے جنھوں نے اس روایت کے بارے میں ثابت نہ ہونے یا بے اصل ہونے کا دعویٰ کیا ہو تو مزید اطمینان اور تسلی کے لیے یہ مطالبہ معقول اور درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر روایت کے بارے میں کسی محدث اور امام کا قول ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ گزرتے زمانے کے ساتھ نئی نئی منگھڑت روایات ایجاد ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مستند عالم تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ یہ روایت یا واقعہ ثابت نہیں اور وہ اس کے عدمِ ثبوت پر کسی محدث یا امام کا قول پیش نہ کرسکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کا یہ دعویٰ غیر معتبر ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کسی امام یا محدث نے اس روایت کے بارے میں کوئی کلام ہی نہ کیا ہو، بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہو، ایسی صورت میں بھی اس روایت کو ثابت ماننے والے حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روایت کا معتبر حوالہ اور ثبوت پیش کریں، اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ انھی حضرات سے ثبوت اور حوالہ کا مطالبہ کریں۔ اور جب تحقیق کے بعد بھی اُس روایت کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ ملے تو یہ اس روایت کے ثابت نہ ہونے کے لیے کافی ہے۔

واضح رہے کہ یہ مذکورہ زیرِ بحث موضوع کافی تفصیلی ہے، جس کے ہر پہلو کی رعایت اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، اس لیے صرف بعض اصولی پہلوؤں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔


⬅️ *ایک اہم نکتہ:*

منگھڑت اور بے اصل روایات سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کوئی روایت واقعتًا بے اصل، منگھڑت اور غیر معتبر ہے تو وہ کسی مشہور خطیب اور بزرگ کے بیان کرنے سے معتبر نہیں بن جاتی۔ اس اہم نکتے سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوجاتی ہے کہ جب انھیں کہا جائے کہ یہ روایت منگھڑت یا غیر معتبر ہے تو جواب میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیسے منگھڑت ہے حالاں کہ یہ میں نے فلاں مشہور بزرگ یا خطیب سے خود سنی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی حدیث کے قابلِ قبول ہونے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں بن سکتی کہ میں نے فلاں عالم یا بزرگ سے سنی ہے، بلکہ روایت کو تو اصولِ حدیث کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ غلطی تو بڑے سے بڑے بزرگ اور عالم سے بھی ہوسکتی ہے کہ وہ لاعلمی اور انجانے میں کوئی منگھڑت روایت بیان کردیں، البتہ ان کی اس غلطی اور بھول کی وجہ سے کوئی منگھڑت اور غیر معتبر روایت معتبر نہیں بن جاتی، بلکہ وہ بدستور منگھڑت اور بے اصل ہی رہتی ہے۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

25 ربیعُ الاوّل 1442ھ/ 12 نومبر 2020


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے