65a854e0fbfe1600199c5c82

دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء




 سنو!سنو!!


ایک نیافتنہ 


ناصرالدین مظاہری


 سوشل میڈیا پر ہمارا جدید پڑھا لکھا طبقہ ایک نئے فتنے کوجنم دے رہا ہے جوقطعاً نہیں ہونا چاہئے، ہمارے نزدیک دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء دونوں ادارے لائق احترام ہیں ،دونوں کی زبردست خدمات ہیں،دونوں کے بانیان نہایت ہی عظیم ہیں چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمدقاسم نانوتویؒ ہیں توندوہ کے بانی حضرت مولانامحمدعلی مونگیریؒ ہیں،اپنے اکابر میں ردعیسائیت اور خاص کرختم نبوت کے سلسلہ میں جو خدمت بانی ندوہ حضرت مولانامحمدعلی مونگیریؒ کے ذریعہ انجام دی گئی ہے اس کی قدرہمارے تمام اسلاف نے کی ہے ،خود حضرت مولانا محمدعلی مونگیری اس عظیم ہستی کے شاگرد رشید ہیں جومظاہرعلوم کے بانیان میں شمارہوتے ہیں یعنی محشیٔ بخاری حضرت مولانا احمدعلی محدث سہارنپوریؒ، حضرت مولانااحمدعلی محدث سہارنپوریؒ کے شاگردوں میں حضرت مولاناحاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ، حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ،حضرت مولانامحمدیعقوب نانوتویؒ،حضرت مولانا محمدعلی مونگیریؒ، حضرت مولانا علامہ شبلی نعمانیؒ،حضرت مولانامحمد مظہر نانوتویؒ،حضرت مولاناخلیل احمد محدث سہارنپوریؒ،حضرت مولانا احمدحسن امروہویؒ وغیرہ اساطین امت شامل ہیں۔بلکہ حضرت مولانامحمدعلی مونگیریؒ کے تلمذ کاذکر مظاہرعلوم کی اولین روداد میں ملتاہے حتیٰ کہ مولانا کو امتحان میں کامیابی پرکون کون سی کتابیں مدرسہ کی طرف سے دی گئی تھیں ان کابھی ذکرموجود ہے۔اس لئے ندوۃ العلما کو الگ سے کسی فکراورکسی نئے مسلک سے مربوط کرنا غلط ہے،ندوۃ العلماکے بانیوں میں ایک نام حضرت مولاناسیدتجمل حسین بہاری ؒکابھی ہے انہوں نے بھی حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ سے اصلاحی تعلق قائم کیااوران ہی کے مسترد ہوئے۔ حضرت مولانا علامہ سیدسلیمان ندویؒ حکیم الامت حصرت تھانویؒ کے اہم ترین مسترد اور خلیفہ ہیں یہی نہیں حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے باقاعدہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمدمدنیؒ سے دیوبند پہنچ کر تفسیرپڑھی ہے ،حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیاہے اوران ہی کے دست حق پرست پربیعت ہوکر مجازہوئے ۔حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے نہ صرف حالات لکھے اورلکھوائے بلکہ دونوں کے مکتوبات جومطبوعہ ہیں ان کوپڑھ کرمحسوس ہوتاہے کہ حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ کوحضرت شیخ محمد زکریا مہاجرمدنیؒ سے بے پناہ عقیدت ومحبت تھی یہی نہیں خود حضرت شیخ کے وہ خطوط جوحضرت مولانا ابوالحسن ندویؒ کے نام موجود ہیں یاآپ بیتی میں ندوہ اور اکابرندوہ کا ذکر خیر جن بلند وبالا الفاظ میں موجود ہے اس کوپڑھ کرکسی کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتاہے کہ یہ حضرات کسی دوسرے ادارے کے تعلیم یافتہ تھے، سچائی یہ ہے کہ حضرت مولاناسیدمحمدعلی مونگیریؒ سے لے اب تک ندوہ کا جوتعلق مظاہرعلوم اور دارالعلوم سے رہاہے اس پربھی اورندوہ کاجو تعلق دارالعلوم سے رہاہے اس پرمستقل کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ،اپنے اکابرکے تعلق اور طرز عمل سے آپ کہیں بھی محسوس نہیں کرپائیں گے کہ کسی نے بھی ایک دوسرے کوغیرسمجھنے کی غلطی کی ہوخودندوۃ العلمامیں حدیث، تفسیر اور فقہ جیسے اہم ترین مناصب پردارالعلوم دیوبندکے تعلیم یافتگان موجود رہے ہیں، پھرچاہے حضرت مولانامفتی برہان الدین سنبھلی ہوں، حضرت مولانا محمد زکریا ہوں یااوربھی دیگربہت سے بزرگ اساتذہ یہ سبھی حضرات دارالعلوم دیوبند کے تعلیم یافتہ سندیافتہ اورندوۃ العلما کی شان اور جان شمار ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا سیدمحمدثانی حسنیؒ تو باقاعدہ مظاہرعلوم کے فارغ تھے اور حضرت مولاناسیدمحمدمرتضی بستویؒ کے درسی ساتھی تھے ،ایک وہاں عربی کا ادیب رہا تو دوسرے نے تاحیات وہاں کے عظیم کتب خانے کے بال و پر اور نوک پلک کو سنوارنے میں اپنی عمرعزیز صرف کردی ۔خودحضرت مولانا سیدمحمدرابع حسنی ندوی مدظلہ (رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند) نے بھی مظاہرعلوم میں کچھ تعلیم پائی ہے اوراس کاذکریہاں مظاہرعلوم وقف میں ایک مرتبہ تشریف آوری کے موقع پرکیا بھی ہے اور یہ بھی فرمایا کہ دارقدیم اورمطبخ کے درمیان میں جوعمارت واقع ہے (دارالتجوید) اس میں میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی،حضرت مولانا سے حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی تک، حضرت مولانا خلیل الرحمن ابن حضرت مولانا احمدعلی محدث سہارنپوری سے حضرت مولانا عتیق احمد بستوی تک کتنی بڑی تعداد ہے جنھوں نے اپنے خون جگر سے ندوہ کی آبیاری وآب پاشی کی ہے اور کررہے ہیں. 


 میرامقصدیہ نہیں ہے کہ کون استاذ ہے اورکون شاگردمیرے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب ہمارے اکابرنے امتیازکی دیواراورتفوق کاحصار اپنے اردگرد نہیں کھینچاہے توہمیں کیاحق بنتا ہے کہ ہم ایک نئے فتنے کو جنم دیں اورحال یہ ہے کہ کل قیامت کے دن اس بابت کوئی سوال نہیں ہوگا وہاں تواعمال کو تولا اور ناپا جائے گا،وہاں تعلیمی لیاقت اورسندات بھی نہیں دیکھی جائیں گی وہاں توصرف نیکیاں معیارہوں گی اورافسوس کہ ہم ان چیزوں میں ملوث ہوکرنیکیوں کے لئے جوبہترین وقت میسرتھااس کو ضائع اور برباد کرکے خود کو ضائع کرنے پر اپنی لیاقت اور صلاحیت صرف کئے دے رہے ہیں۔


 بہت ممکن ہے میری ان باتوں سے کسی قاسمی بھائی کو تکلیف پہنچے یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ندوی بھائی کواعتراض ہو لیکن میں کیاکروں ؟ میں بالکل نہیں چاہتا کہ اتحاد اور اتفاق کے بہترین موقع کواختلاف اور افتراق میں ضائع کریں ۔کیاملے گااپنی افضلیت کوثابت کرکے؟ کیاہوگاکسی کواپنے سے کمتراور حقیرثابت کرکے؟سبھی کواپنی قبرمیں سوناہے،سبھی کومٹی میں ملناہے،سبھی کونکیرین کے سوالات کے جوابات دینے ہیں، قبرمیں پہنچتے ہی یہ سارا تفوق اورامتیازہی ختم ہوجائے گا، قبرکے فرشتے ہم سے ہماری ڈگریاں نہیں ہماری ڈگر اور ہمارا عمل دیکھیں گے ،ہم سے جو سوالات ہوں گے ہمیں ان کے جوابات کی تیاری کرنی چاہئے،جاہل اور ان پڑھ فضولیات میں الجھیں توان کو مجبوروبے قصور سمجھاجاسکتا ہے کیونکہ وہ توبے چارے جاہل ہیں لیکن پڑھا لکھاطبقہ جب ان فضولیات میں الجھتاہے تونہایت تکلیف ہوتی ہے ،دل روتا ہے، آنکھیں روتی ہیں کہ جولوگ اپنی شاندار صلاحیتیں مثبت اور تعمیری کاموں میں صرف کرکے خوشنما انقلاب پیداکرسکتے ہیں افسوس کہ وہ ہی ایسی لایعنی چیزوں میں الجھ چکے ہیں ۔


 خدارا! زندگی کے سراغ کوتلاش کیجئے، خداکی رضا اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے خود کو تیار کیجئے! لغو اور فضول کاموں کوترک کردیجئے ،امت بہت منتشرہوچکی ہے اس کو مزیدکسی نئے انتشارسے دوچار مت کیجئے ۔امت کے فائدے کے لئے کچھ کرسکتے ہیں تواٹھ کھڑے ہوں ورنہ کسی کونے میں خاموشی کے ساتھ بیٹھ جائیے کہ آپ کایہ بیٹھنابھی آپ کے لئے ’’’عبادت‘‘ ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے