سنو!سنو!!
ایک دوسرے کے لئے خود کو سنواریں!
ناصرالدین مظاہری
یہ تقریبا 12/سال پہلے کی بات ہے،رمضان المبارک کا کوئی دن تھا، وقت یہی کوئی تین بجے کا رہاہو گا، میں خوریجی حاجی عبداللطیف مرحوم (فرنیچر والے)کے دفتر میں داخل ہوا تو وہ دارجدید مظاہرعلوم کے سفیر محمد مسلم صاحب پر باقاعدہ برس رہے تھے، مجھے داخل ہوتے دیکھا تو بولے :یہ دیکھو ان کے کپڑوں کو،کتنے صاف ستھرے ہیں، حلیہ بھی اچھا ہے، خط وغیرہ بھی بنا رکھا ہے،لگتاہے غسل بھی کرکے آئے ہیں،ایک آپ ہیں، چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں، نہایا تو پتہ نہیں کب ہوگا، کپڑے دیکھ کر لگتاہے ایک ہفتے سے پہن رکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ مظاہر سے آئے ہیں،میں نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس سفیر کی تصدیق کرنی چاہی تو حاجی صاحب بولے کہ مجھے یقین ہے کہ یہ سچ بول رہے ہیں، میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو صاف ستھرا رہنا چاہئے، کپڑے وغیرہ معیاری نہ ہوں تو کم از کم گندے بھی نہ ہوں خود آپ کے حلیہ اور لباس کو دیکھ کر مجھے محسوس ہورہاہے کہ آپ کسی بڑے ادارے سے آئے ہیں یہی بات میں ان کو سمجھانا چاہتا ہوں اور یہ سمجھ ہی نہیں رہے ہیں.
حاجی عبداللطیف بڑے نیک، مخلص اور ملی سماجی کاموں میں خوب پیش پیش رہنے والے انسان تھے.
اسلام پاکی اور صفائی، وضع قطع، حلیہ اور لباس کے معاملہ میں سب سے بڑا حامی اور علمبردار ہے، اسلام ہر موقع پر کہتاہے کہ خود کو،اپنے لباس کو اور اپنے حلیہ کو بہتر رکھو. اسلام گندگی، رہبانیت وغیرہ کا مخالف ہے.
ایک ڈاکٹرتھے ان کانام گنگارام تھا،بڑے تجربہ کار،ایک دن میں بھی ان کے پاس پہنچا،ایک بوڑھی خاتون نہایت عجیب وغریب پھٹے حال میں ان کے پاس پہنچی توڈاکٹرصاحب نے طنز میں کہاکہ سناہے کہ تیرے گھرہے؟وہ خاتون بولی: ہاں ڈاکٹر صاحب گھرہے تو ڈاکٹرصاحب نے کہاکہ تو تھوڑا ساتیل اپنے بالوں میں لگاکرکنگھی بھی کرلیاکر۔
بیوی ایسی ہو جس کوچاند دیکھے تو شرما جائے،بہو ایسی ہونی چاہئے کہ محلہ میں کوئی اس جیسی حسین مہ جبین نہ ہو۔بے شک آپ اس انتخاب میں شرعاًکچھ غلط نہیں کررہے ہیں لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ برابری بھی کوئی چیزہے ،فرض کریں بیوی آپ کوچاند جیسی چاہئے اور خود گوبر ناتھ ہیں، بہو آپ کومہ پارہ مطلوب ہے لیکن لڑکا آپ کا اپنے وقت کاجاحظ ہے،بہوآپ کی نہایت گوری اور سرخ و سپید ہے لیکن لڑکاآپ کا کالا بھجنگا کوئلہ ہے ، آپ کی بہو کے ایک ایک عضو سے حسن ظاہر ہوتاہے اورآپ کے لڑکے کے ایک ایک انگ سے بدصورتی جھلکتی ہے تو یقین کیجئے ایسے رشتے زیادہ دن اور زیادہ دیرتک اِس زمانے میں چلنے والے نہیں ہیں ۔اس بارے میں بھی برابری ہونی چاہئے ،آپ کواپنا لڑکا چودہویں رات کاچاند نظر آتاہے تواسی فکر اور اسی دل سے سوچیں کون سے والدین ہیں جن کواپنی بیٹی بدصورت نظرآتی ہے ؟والدین کی نظرسے دنیامیں نظرڈالیں گے توکوئی بھی بدصورت نہیں ملے گا۔
قرآن اورحدیث میں بننے سنورنے کی ہدایت دی گئی ہے ،لیکن اس بننے اور سنورنے کاصرف ایک ہی پہلو سمجھ لیاجائے کہ بیوی کوبننا ہے،سجناہے، سنورناہے، معطر اور معنبر رہناہے،بیوی کوایسابن کر رہنا ہے کہ شوہردیکھے تولٹو ہوجائے، بیوی کے گال سے بال تک،اس کی ایک ایک چیز شوہرکوحسین نظرآنی چاہئے تو بھائی آپ اپنی اس سوچ میں بالکل غلط نہیں ہیں لیکن اتنابھی توسوچیں کہ آپ کی بیوی بھی انسان ہے،اس کوبھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی شکل میں ایک شوہرعطا فرمایا ہے، وہ بھی چاہتی ہے کہ اس کا شوہرصاف وشفاف رہے،اپنے لباس،اپنے جسم ،اپنے چہرے اور اپنے آپ کا پورا خیال رکھے، وہ بیوی کے سامنے پہنچے تو بیوی خوش ہوجائے ،اس کو شیطان کبھی بہکائے تواس کادل کہے کہ بہنا! تیرا شوہر لاکھوں میں ایک ہے ،بہت سے لوگ اپنی بیوی کے سامنے بھی الول جلول ہی رہتے ہیں،نہ اپنی شکل وصورت کوسنوارنے کا خیال،نہ بالوں اور چہرے کے خط وخال کودرست کرنے کی فرصت،صبح سے شام تک باہر کاموں میں لگے رہے اور شام کوگھر پہنچے تو اس حالت میں کہ بیوی بھی اس کی شکل کو دیکھ کرخوف زدہ ہوجائے اس کی شریعت نے کہیں حوصلہ افزائی نہیں کی ہے ۔بے شک بیویاں صبروالی ہوتی ہیں،انھیں اپنے شوہرمیں کچھ بھی کمی نظرنہیں آتی لیکن سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخرکس لئے قرآن میں بیویوں کوحکم ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے لئے خود کو سجائیں؟ وجہ یہی توہے کہ تاکہ شوہرکادل دوسری عورتوں کی طرف راغب نہ ہوتوآپ اس وقت اس کے برعکس کیوں نہیں سوچتے کہ شوہرکوبھی اپنی بیوی کے لئے سجنا چاہئے، سنورناچاہئے تاکہ اس کی بیوی کادل ادھرادھرنہ بہک سکے، غیرمردوں کی طرف دیکھنے کی اس کونوبت ہی نہ آسکے۔
عجب تیری ہے اے محبوب صورت
نظر سے گر گئے سب خوب صورت
مجھ سے ایک عورت نے فون پر اپنے شوہرکی شکایت کی اورکہنے لگی کہ میں آپ کی بات اپنے شوہرسے کراتی ہوں آپ انھیں بتائیں کہ اسلام میں پاکی اور صفائی کاکیا مقام ہے ، انھیں سمجھائیں کہ اسلام میں شوہروں کواپنی بیویوں کے لئے بھی بننے اورسجنے کی ضرورت ہے ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امہات المؤمنین کے لئے اپنے آپ کو تیارنہیں فرماتے تھے،وہ خاتون کہنے لگیں کہ ان کاشوہرکئی کئی دن غسل نہیں کرتاہے،اپنے کپڑے تک تبدیل نہیں کرتاہے،اس کے بدن سے اسمیل (بدبو) آتی رہتی ہے، ایسانہیں ہے کہ میرا شوہر بدصورت ہے ،ماشاء اللہ خوبصورت ہے لیکن اس کی ان عادتوں کی وجہ سے میں تنگ آچکی ہوں ۔
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
مجھ کوحیرت ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ اتنے گندے کپڑوں میں مسجد میں جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں حالانکہ مساجدمیں آنے سے پہلے زیب وزینت اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ،یہ لوگ جوعشاء کے وقت اس حالت اورہیئت میں ہیں وہ کب نہاتے ہوں گے اور کب ان کا اپنی بیویوں سے آمنا سامنا ہوتا ہوگا اور ان کی بیویوں پرکیاگزرتی ہوتی۔
بے شک آپ ایک بیوی کے شوہر ہیں ،آپ یہ بات بالکل مت بھولیں کہ خوبصورتی اللہ تعالیٰ کی نہایت اہم دولت ہے ،اللہ تعالیٰ پاکی اور صفائی کوتو پسند فرماتا ہی ہے ساتھ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے ان اللہ جمیل یحب الجمال ۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اورخوبصورتی کوپسند فرماتاہے ۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ، قَالَ رَجُلٌ: اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا، وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ۔ اَلْکِبْرُ: بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ۔
جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت نہیں جائے گا ایک آدمی کہنے لگا :بلاشبہ آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور جوتا اچھا ہو۔فرمایا یقینا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو محبوب رکھتا ہے۔ تکبر حق کا انکار کرڈالنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔
بہت سے امیرکبیر دولت مند بھی بھدے ،پرانے اورپھٹے حال میں دکھائی دیتے ہیں ،ان کے چہرے کی رنگت غائب، ان کے جسم سے اچھالباس غائب ،یہ صرف کنجوسی ہے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگراللہ تعالیٰ نے آپ کوکچھ مال دیاہے تواس کااثر آپ کے جسم اورلباس سے ظاہرہوناچاہئے تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ یُحِبَّ أَنْ یُّرٰی أَثْرُ نِعْمَتِہِ عَلٰی عَبْدِہِ۔
بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمت کے نشانات دیکھنا پسند کرتا ہے۔ (ابوداؤد)
میں تو منیرؔ آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا پہلے کسی زمانے میں
0 تبصرے