65a854e0fbfe1600199c5c82

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد مسجد کے قریب خرید وفروخت کا حکم



 ✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨


*سلسلہ نمبر 529:*

🌻 جمعہ کی پہلی اذان کے بعد مسجد کے قریب خرید وفروخت کا حکم


آجکل یہ صورتحال بڑی کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہے کہ بہت سی مساجد کے پاس عطر، ٹوپیوں، مسواک اور رومال وغیرہ کی دکانیں ہوا کرتی ہیں، یا بعض لوگ مسجد کے دروازے کے پاس یہ چیزیں فروخت کرنے کے لیے ٹیہ وغیرہ لگا لیتے ہیں، چنانچہ جب لوگ پہلی اذان کے بعد نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد پہنچ جاتے ہیں تو وہاں موجود دکان اور ٹیے سے مذکورہ چیزیں خرید لیتے ہیں اور نمازِ جمعہ کے ساتھ مذکورہ چیزوں کے کسی درجے میں تعلق ہونے کی وجہ سے اس خرید وفروخت میں کوئی گناہ بھی نہیں سمجھا جاتا اور اس میں دیندار لوگ بھی مبتلا ہوتے ہیں، اگرچہ اس سے بڑھ کر قابلِ اصلاح صورتحال مذکورہ چیزوں کے علاوہ دیگر چیزوں کی خرید وفروخت کی ہے۔ 

ایسے میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا یہ خرید وفروخت جائز ہے؟ ذیل میں اس کا تفصیلی حکم ذکر کیا جاتا ہے تاکہ صحیح مسئلہ واضح ہوکر غلطیوں کی اصلاح ہوسکے۔ ابتدا میں کچھ تمہیدی باتیں ملاحظہ فرمائیں۔


🕋 جمعہ کی پہلی اذان کے بعد سَعی اِلی الجمعہ کا حکم:

شریعت نے جمعہ کی نماز کے لیے جلدی جانے کی ترغیب دیتے ہوئے اس کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، پھر جمعہ کی پہلی اذان ہوتے ہی نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانے کو واجب قرار دیا ہے، اس کو سعی الی الجمعہ کہا جاتا ہے، حتی کہ جمعہ کی پہلی اذان شروع ہوتے ہی خرید وفروخت اور ہر وہ کام ممنوع قرار دیا ہے جو کہ اس سعی الی الجمعہ یعنی جمعہ کے لیے جانے میں رکاوٹ بنے تاکہ بروقت جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانا ہوسکے۔

☀ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ الجمعہ میں فرماتے ہیں:

يٰٓأَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا إِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَۚ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. (9)

▪ *ترجمہ:* ’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھو۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن)


📿 سَعی اِلی الجمعہ میں رکاوٹ بننے والے امور کی ممانعت:

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد سعی الی الجمعہ میں رکاوٹ بننے والا ہر کام ممنوع اور ناجائز ٹھہرتا ہے، چاہے دنیوی کام ہو یا دینی۔ واضح رہے کہ قرآن کریم میں تو صرف خرید وفروخت ترک کردینے کا ذکر ہے، لیکن حضرات فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اس سے ہر وہ کام مراد ہے جو سعی الی الجمعہ میں خلل انداز ہو، چاہے خرید وفروخت ہو، کھانا پینا ہو، سونا ہو، مطالعہ کرنا ہو، یا کوئی بھی دینی یا دنیوی کام ہو؛ وہ سب ممنوع ہیں۔ 

▪ چنانچہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دام ظلہم مذکورہ آیت کے تحت فرماتے ہیں:

’’جمعہ کی پہلی اذان کے بعد جمعہ کے لیے روانہ ہونے کے سوا کوئی اور کام جائز نہیں، نیز جب تک جمعہ ختم نہ ہوجائے خرید فروخت کا کوئی معاملہ جائز نہیں ہے۔ اللہ کے ذکر سے مراد جمعہ کا خطبہ اور نماز ہے۔‘‘

(آسان ترجمہ قرآن)


📿 کونسی مسجد کی اذان کے بعد خرید وفروخت کی ممانعت ہے؟

واضح رہے کہ محلے کی مسجد یعنی قریبی مسجد میں جب جمعہ کی پہلی اذان ہوجائے تو سعی الی الجمعہ واجب ہوجاتا ہے، اس لیے محلے ہی کی مسجد کی اذان کے بعد خرید وفروخت کی ممانعت ہے۔ دیکھیے: فقہ البیوع۔


📿 جمعہ کی پہلی اذان کے بعد کیے گئے خرید وفروخت کا حکم:

مذکورہ تفصیل کے مطابق جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید وفروخت کرنا ناجائز ہے، ایسی صورت میں خرید وفروخت کرنے والے دونوں فریق گناہ گار ہوں گے، اس لیے ان کے ذمے توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے۔ اور اس گناہ کے ازالے کے لیے متعدد فقہاء کرام کے نزدیک ایسے معاملے کو ختم کرنا بھی واجب ہے۔ دیکھیے: فقہ البیوع از شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دام ظلہم۔


📿 جمعہ کی پہلی اذان کے بعد مسجد کے قریب خرید وفروخت کا حکم:

   ماقبل کی تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ مسجد کی پہلی اذان کے بعد مسجد کے قریب کسی دکان یا مسجد کے دروازے پر بنے کسی ٹیے پر کوئی چیز فروخت کرنا یا لوگوں کا ان سے کوئی چیز خریدنا دونوں ہی ناجائز ہیں۔

اس لیے اگر کسی کو مسواک، ٹوپی، عطر وغیرہ کی ضرورت ہو تو وہ یہ کام جمعہ کی پہلی اذان سے پہلے سر انجام دے یا اگر کوئی اور چیز خریدنے کی ضرورت ہو تو یہ کام جمعہ کی نماز کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے۔


⬅️ ذیل میں مزید وضاحت کے لیے کچھ مسائل ذکر کیے جاتے ہیں:

 *مسئلہ 1️⃣:* اگر دو افراد جمعہ کی پہلی اذان کے بعد نمازِ جمعہ کے لیے جاتے جاتے اس طرح خرید وفروخت کریں کہ سعی الی الجمعہ فوت نہ ہو یعنی اس کی وجہ سے ٹھہرنا نہ پڑے تو یہ جائز ہے۔

*مسئلہ 2️⃣:* اگر جمعہ کی پہلی اذان کے بعد کوئی شخص مسجد کے قریب کسی دکان یا ٹیے سے کوئی چیز خریدے اور اُن میں سےکسی ایک نے جمعہ کی نماز ادا نہ کی ہو تو یہ معاملہ بھی جائز نہیں، کیوں کہ جس نے اب تک نمازِ جمعہ ادا نہیں کی تو وہ اس لیے گناہ گار ہے کہ اس نے سعی الی الجمعہ کا واجب ترک کیا ہے، جبکہ جس نے جمعہ کی نماز ادا کردی ہے وہ اس لیے گناہ گار ہے کہ یہ اُس دوسرے شخص کے سعی الی الجمعہ میں خلل انداز ہورہا ہے۔

اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اگر کوئی شخص کسی اور مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرکے ایسی مسجد کے محلے میں آیا جہاں پہلی اذان تو ہوچکی ہو لیکن تاحال جمعہ کی نماز نہ ہوئی ہو تو ایسی صورت میں جمعہ کی نماز ہوجانے تک ایسے شخص سے کوئی چیز خریدنا بھی ناجائز ہے جس نے جمعہ کی نماز ادا نہ کی ہو۔

*مسئلہ 3️⃣:* مسجد کے قریب بعض دکانوں اور تجارتی مراکز والے یوں کرتے ہیں کہ جمعہ کی پہلی اذان کے بعد تجارت بند نہیں کرتے بلکہ متعدد مساجد میں باری باری نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں تاکہ کاروبار چلتا رہے، یاد رہے کہ یہ بھی ناجائز ہے کیوں کہ سعی الی الجمعہ کا حکم ان میں سے ہر ایک کے لیے واجب ہے، اس 

لیے جمعہ کی پہلی اذان کے بعد دکان میں بیٹھے رہنے سے یہ واجب فوت ہوجاتا ہے۔

 *مسئلہ 4️⃣:* البتہ جن مساجد میں جمعہ کی پہلی اذان تاخیر سے یعنی بیان کے بعد اور سنتوں سے پہلے دی جاتی ہے تو وہاں مسجد کے قریب خرید وفروخت کی گنجائش ہے، البتہ نمازِ جمعہ کے اہتمام اور فضیلت کی وجہ سے مناسب یہی ہے کہ نمازِ جمعہ کا وقت داخل ہوجانے کے بعد کاروبار بند رکھا جائے۔


الموسوعة الفقهية الكويتية:

النَّوْعُ الثَّانِي: الأَسْبَابُ الَّتِي تُؤَدِّي إِلَى مُخَالَفَةٍ دِينِيَّةٍ أَوْ عِبَادِيَّةٍ مَحْضَةٍ:

أ- الْبَيْعُ عِنْدَ أَذَانِ الْجُمُعَةِ:

133- أَمَرَ الْقُرْآنُ الْكَرِيمُ بِتَرْكِ الْبَيْعِ عِنْدَ النِّدَاءِ (الأذَانِ) يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَال تَعَالَى: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ». وَالأمْرُ بِتَرْكِ الْبَيْعِ نَهْيٌ عَنْهُ. وَلَمْ يَخْتَلِفِ الْفُقَهَاءُ فِي أَنَّ هَذَا الْبَيْعَ مُحَرَّمٌ لِهَذَا النَّصِّ .....

ب- وَالْقَوْل الأصَحُّ وَالْمُخْتَارُ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ وَهُوَ اخْتِيَارُ شَمْسِ الأَئِمَّةِ أَنَّ الْمَنْهِيَّ عَنْهُ هُوَ الْبَيْعُ عِنْدَ الأذَانِ الأَوَّل الَّذِي عَلَى الْمَنَارَةِ، وَهُوَ الَّذِي يَجِبُ السَّعْيُ عِنْدَهُ، وَهُوَ الَّذِي رَوَاهُ الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى إِذَا وَقَعَ بَعْدَ الزَّوَال. وَعَلَّلُوهُ بِحُصُول الإعْلَامِ بِهِ، وَلأَنَّهُ لَوِ انْتَظَرَ الأذَانَ عِنْدَ الْمِنْبَرِ يَفُوتُهُ أَدَاءُ السُّنَّةِ وَسَمَاعُ الْخُطْبَةِ، وَرُبَّمَا تَفُوتُهُ الْجُمُعَةُ إِذَا كَانَ بَيْتُهُ بَعِيدًا مِنَ الْجَامِعِ ...... 

ثَالِثًا: حُكْمُ الْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ بَعْدَ السَّعْيِ: 

الْفُقَهَاءُ مُتَّفِقُونَ عَلَى كَرَاهَتِهِ:

أ- فَقَدْ نَصَّ الْحَنَفِيَّةُ عَلَى أَنَّ الْبَيْعَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ أَوْ فِيهِ عِنْدَ الأذَانِ الأَوَّل الْوَاقِعِ بَعْدَ الزَّوَال أَعْظَمُ وِزْرًا مِنَ الْبَيْعِ مَاشِيًا إِلَى الْجُمُعَةِ . (البيع: بيع منهي عنه: أَسْبَابُ النَّهْيِ عَنِ الْبَيْعِ)


❄️ *وضاحت:*

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید وفروخت کی مروجہ صورتحال کافی افسوس ناک اور واجبُ الاصلاح ہے، اور اس کے مسائل بھی تفصیل طلب ہیں، اس لیے زیرِ نظر تحریر میں اس سے متعلق مسائل تفصیل سے ذکر کرنا مقصود نہیں، بلکہ اس تحریر کے عنوان کی مناسبت سے ضروری مسئلہ کی وضاحت مقصود ہے، جس کے ضمن میں مزید وضاحت کے لیے متعدد مسائل بھی ذکر کردیے گئے۔


❄️ *فائدہ:* نماز جمعہ کے وقت اور اس سے متعلق رائج غلطیوں کی اصلاح کے لیے اسی سلسلہ اصلاحِ اغلاط کا سلسلہ نمبر 102: ’’نمازِ جمعہ کا وقت اور اس کے احکام‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

13 رجب المرجب 1442ھ/ 26 فروری 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے