📿 پانچ بے بنیاد روایات:
امت میں کئی ایسی روایات مشہور ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، ذیل میں ایسی پانچ بے بنیاد روایات ملاحظہ فرمائیں:
▪ روایت 1️⃣: تم فقراء کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو، کیوں کہ قیامت کے دن ان کے لیے بادشاہت ہوگی، چنانچہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک پکارنے والا پکارے گا کہ چلو فقراء کی طرف۔ سو ان سے معذرت کی جائے گی جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے دنیا میں معذرت کرتا ہے۔ (یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ بیان کی جاتی ہے۔)
▪️ حکم:
امام ابن تیمیہ، امام ذہبی اور امام سخاوی رحمہ اللہ نے اس کو باطل اور منگھڑت قرار دیا ہے۔
☀ كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس:
68- «اتخذوا عند الفقراء أيادي فإن لهم دولة يوم القيامة»: رواه أبو نعيم عن الحسين بن علي بسند ضعيف، وذكره في «المقاصد» في الترجمة باللفظ المذكور، ولكن بزيادة: «فإذا كان يوم القيامة نادى مناد سيروا إلى الفقراء فيعتذر إليهم كما يعتذر أحدكم إلى أخيه في الدنيا». وقال في «التمييز» تبعا للأصل: قال الحافظ ابن حجر: لا أصل له. وزاد في «التمييز»: قال شيخنا -يعني السخاوي- بعد إيراد أحاديث بمعناه: وكل هذا باطل، وسبقه الذهبي وابن تيميه وغيرهما للحكم بذلك، انتهى.
▪ روایت 2️⃣:
جس شخص نے اذان اور اقامت سنی اور جماعت میں حاضر نہ ہوا تو گویا کہ اس نے اپنی ماں سے ہزار بار زنا کیا۔
▪️ حکم:
مرد حضرات کے لیے کسی معتبر عذر کے بغیر جماعت کی نماز ترک کرنے کا ناجائز اور گناہ ہونا واضح سی بات ہے، لیکن مذکورہ روایت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
▪ روایت 3️⃣:
اللہ تعالیٰ بوڑھے شخص کے چہرے کو صبح وشام دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ: میرے بندے! تیری عمر زیادہ ہوگئی ہے، تیری کھال پتلی ہوگئی ہے، تیری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں، تیرا اجل قریب آچکا ہے اور میرے پاس تیرے آنے کا وقت ہوچکا ہے، سو مجھے تیرے بڑھاپے کی وجہ سے تجھے آگ میں عذاب دینے سے حیا آتی ہے۔
▪️حکم:
حضرت شیخ عبد الرحمٰن صفوری صاحب رحمہ اللہ نے مذکورہ روایت اپنی کتاب ’’نزہۃ المجالس‘‘ میں کسی سند اور حوالے کے بغیر ذکر فرمائی ہے، لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
▪ روایت 4️⃣:
جو شخص قبرستان سے گذرتے ہوئے سورتِ اخلاص اکیس مرتبہ پڑھ کر مردوں کو بخش دے تو اسے مردوں کی تعداد کے برابر اجر نصیب ہوجاتا ہے۔
▪️حکم:
امام سیوطی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہم اللہ کے نزدیک مذکورہ روایت منگھڑت ہے۔
☀ تذكرة الموضوعات للفتني:
في «الذيل»: من مر بالمقابر فقرأ الإخلاص إحدى وعشرين مرة ثم وهب أجره للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات» من نسخة عبد الله بن أحمد الموضوعة.
▪ روایت 5️⃣:
عمامہ باندھنے والوں کو عمامہ کے ہر پیچ کے بدلے قیامت کے دن ایک نور دیا جائے گا۔
▪️ حکم:
مذکورہ روایت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
⬅️ خلاصہ:
مذکورہ پانچ روایات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اس لیے ان کو بیان کرنے اور پھیلانے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
📿 احادیث بیان کرنے میں شدید احتیاط کی ضرورت:
احادیث کے معاملے میں بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی بات کی نسبت حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ کی طرف کرنا یا کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس کے لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آجکل بہت سے لوگ احادیث کے معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے، بلکہ کہیں بھی حدیث کے نام سے کوئی بات مل گئی تو مستند ماہرین اہلِ علم سے اس کی تحقیق کیے بغیر ہی اس کو حدیث کا نام دے کر بیان کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں بہت سی منگھڑت روایات عام ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بے اصل اور غیر ثابت روایت بیان کرکے حضور اقدس ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا شدید گناہ اپنے سر لے لیا جاتا ہے۔
ذیل میں اس حوالے سے دو احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے اور اس سے اجتناب کیا جاسکے:
1️⃣ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘
110- حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: « ... وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».
2️⃣۔ ’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو، کیوں کہ جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘
2- عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضى الله عنه يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لا تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ».
ان وعیدوں کے بعد کوئی بھی مسلمان منگھڑت اور بے بنیاد روایات پھیلانے کی جسارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر تحقیق کیے کوئی حدیث بیان کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔
بندہ نے ایک روایت کے بارے میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ روایت ثابت نہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی حوالہ دیجیے، تو بندہ نے ان سے عرض کیا کہ: حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا دیا جاسکتا ہے، اب جو روایت احادیث اور سیرت کی کتب میں موجود ہی نہ ہو تو اس کا حوالہ کہاں سے پیش کیا جائے! ظاہر ہے کہ حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا ہوتا ہے، روایت کے نہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ روایت موجود نہیں، باقی جو حضرات اس روایت کے ثابت ہونے کا دعوی ٰ کرتے ہیں تو اصولی طور پر حوالہ اور ثبوت انھی کے ذمے ہیں، اس لیے انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو حضرات کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرتے ہیں اُن سے تو حوالہ اور ثبوت طلب نہیں کیا جاتا لیکن جو یہ کہے کہ یہ ثابت نہیں تو اُن سے حوالے اور ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے! کس قدر عجیب بات ہے یہ! ایسی روش اپنانے والے حضرات کو اپنی اس نامناسب عادت کی اصلاح کرنی چاہیے اور اصولًا انھی حضرات سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے کہ جو کسی روایت کو بیان کرتے ہیں یا اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
البتہ اگر حوالہ سے مراد یہ ہو کہ کسی محدث یا امام کا قول پیش کیا جائے جنھوں نے اس روایت کے بارے میں ثابت نہ ہونے یا بے اصل ہونے کا دعویٰ کیا ہو تو مزید اطمینان اور تسلی کے لیے یہ مطالبہ معقول اور درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر روایت کے بارے میں کسی محدث اور امام کا قول ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ گزرتے زمانے کے ساتھ نئی نئی منگھڑت روایات ایجاد ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مستند عالم تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ یہ روایت یا واقعہ ثابت نہیں اور وہ اس کے عدمِ ثبوت پر کسی محدث یا امام کا قول پیش نہ کرسکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کا یہ دعویٰ غیر معتبر ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کسی امام یا محدث نے اس روایت کے بارے میں کوئی کلام ہی نہ کیا ہو، بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہو، ایسی صورت میں بھی اس روایت کو ثابت ماننے والے حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روایت کا معتبر حوالہ اور ثبوت پیش کریں، اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ انھی حضرات سے ثبوت اور حوالے کا مطالبہ کریں۔ اور جب تحقیق کے بعد بھی اُس روایت کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ ملے تو یہ اس روایت کے ثابت نہ ہونے کے لیے کافی ہے۔
واضح رہے کہ یہ مذکورہ زیرِ بحث موضوع کافی تفصیلی ہے، جس کے ہر پہلو کی رعایت اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، اس لیے صرف بعض اصولی پہلوؤں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔
📿 ایک اہم نکتہ:
منگھڑت اور بے اصل روایات سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کوئی روایت واقعتًا بے اصل، منگھڑت اور غیر معتبر ہے تو وہ کسی مشہور خطیب اور بزرگ کے بیان کرنے سے معتبر نہیں بن جاتی۔ اس اہم نکتے سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوجاتی ہے کہ جب انھیں کہا جائے کہ یہ روایت منگھڑت یا غیر معتبر ہے تو جواب میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیسے منگھڑت ہے حالاں کہ یہ میں نے فلاں مشہور بزرگ یا خطیب سے خود سنی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی حدیث کے قابلِ قبول ہونے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں بن سکتی کہ میں نے فلاں عالم یا بزرگ سے سنی ہے، بلکہ روایت کو تو اصولِ حدیث کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ غلطی تو بڑے سے بڑے بزرگ اور عالم سے بھی ہوسکتی ہے کہ وہ لاعلمی اور انجانے میں کوئی منگھڑت روایت بیان کردیں، البتہ ان کی اس غلطی اور بھول کی وجہ سے کوئی منگھڑت اور غیر معتبر روایت معتبر نہیں بن جاتی، بلکہ وہ بدستور منگھڑت اور بے اصل ہی رہتی ہے۔
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
10 صفر المظفّر 1443ھ/ 18 ستمبر 2021
0 تبصرے