65a854e0fbfe1600199c5c82

پانچ بے اصل روایات



 📿 پانچ بے اصل روایات:


عوام میں کئی ایسی روایات مشہور ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، ذیل میں ایسی پانچ بے اصل روایات ملاحظہ فرمائیں:


روایت 1️⃣:

اگر چاول آدمی کی صورت میں ہوتا تو بردبار ہوتا۔ 


▪️حکم:

حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ نے حضرت امام ابن القیم اور حضرت امام ابن حجر عسقلانی رحمہم اللہ کے حوالے سے اس روایت کو منگھڑت قرار دیا ہے۔

المصنوع في معرفة الحديث الموضوع (الموضوعات الصغرى):

252– حَدِيثُ: «لَوْ كَانَ الأَرُزُّ رَجُلًا لَكَانَ حَلِيمًا» مَوْضُوعٌ، قَالَهُ ابْنُ الْقَيِّمِ وَتَبِعَهُ الْعَسْقَلَانِيُّ.


روایت 2️⃣:

 زمین سے نکلنے والی ہر چیز میں بیماری بھی ہے اور شفا بھی، سوائے چاول کے کہ اس میں صرف شفا ہے، بیماری نہیں۔

 

▪️حکم:

امام ابن حجر مکی رحمہ اللہ نے امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کے حوالے سے اس کو منگھڑت اور جھوٹ قرار دیا ہے۔

☀️ كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس:

1982- «كل شيء أخرجته الأرض فيه شفاء وداء إلا الأرز، فإنه شفاء لا داء فيه»: قال ابن حجر المكي نقلا عن السيوطي: كذب موضوع.


روایت 3️⃣:

 گلاب حضور اقدس ﷺ کے پسینے سے یا براق کے پسینے سے پیدا کیا گیا ہے۔ 

  

▪️حکم:

 حضرت امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس بات کو منگھڑت قرار دیا ہے، اور امام نووی رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ یہ بات درست نہیں۔

المصنوع في معرفة الحديث الموضوع (الموضوعات الصغرى):

71- حَدِيثُ: «إِنَّ الْوَرْدَ خُلِقَ مِنْ عَرَقِ النَّبِيِّ ﷺ أَوْ مِنْ عَرَقِ الْبُرَاقِ» قَالَ النَّوَوِيُّ: لَا يَصِحُّ، 

وَقَالَ الْعَسْقَلانِيُّ وَغَيْرُهُ: مَوْضُوعٌ.


روایت 4️⃣:

بینگن جس مقصد کے لیے بھی کھایا جائے تو وہ پورا ہوتا ہے۔


▪️حکم:

مذکورہ روایت سمیت بینگن کی فضیلت سے متعلق عوام میں مشہور تمام روایات منگھڑت اور جھوٹ ہیں۔

الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى:

112- حَدِيثُ: «الْبَاذِنْجَانُ لِمَا أُكِلَ لَهُ» بَاطِلٌ لَا أَصْلَ لَهُ، قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ، لَمْ أَقِفْ عَلَيْهِ. وَقَالَ بَعْضُ الْحُفَّاظِ: إِنَّهُ مِنْ وَضْعِ الزَّنَادِقَةِ. وَقَالَ الزَّرْكَشِيُّ: وَقَدْ لَهِجَ بِهِ الْعَوَامُ حَتَّى سَمِعْتُ قَائِلًا مِنْهُمْ يَقُولُ: هُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ: «مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ». وَهَذَا خَطَأٌ قَبِيحٌ، وَكُلُّ مَا يُرْوَى فِيهِ بَاطِلٌ. قَالَ السُّيُوطِيّ: وَلَمْ أَقِفْ لَهُ عَلَى إِسْنَادٍ إِلَّا فِي تَارِيخِ بَلْخَ، وَهُوَ مَوْضُوعٌ. وَفِي «الْفَتَاوَى الْحَدِيثِيَّةِ» لَهُ: إِن هَذَا الْقَائِل مخطىء أَشَدَّ الْخَطَأِ؛ فَإِنَّ حَدِيثَ الْبَاذِنْجَانِ كَذِبٌ بَاطِلٌ مَوْضُوعٌ بِإِجْمَاعِ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ، نَبَّهَ عَلَى ذَلِكَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي «الْمَوْضُوعَاتِ» وَالذَّهَبِيُّ فِي «الْمِيزَانِ» وَغَيْرُهُمَا، وَحَدِيثُ مَاءُ زَمْزَمَ مُخْتَلَفٌ فِيهِ فَقِيلَ: صَحِيحٌ، وَقِيلَ: حَسَنٌ، وَقِيلَ: ضَعِيفٌ، وَلَمْ يَقُلْ أَحَدٌ: إِنَّهُ مَوْضُوعٌ.


روایت 5️⃣:

 اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے بھی ہیں جن کی آنکھوں کے مابین پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔

 

▪️حکم:

یہ روایت بھی بے اصل ہے۔

☀️ المصنوع في معرفة الحديث الموضوع (الموضوعات الصغرى):

63- حَدِيثُ: «إِنَّ لِلّٰهِ مَلَكًا مَا بَيْنَ شُفْرَيْ عَيْنَيْهِ مَسِيرَةُ خَمْسِ مائة عَامٍ»: لَمْ يُوجَدْ لَهُ أَصْلٌ.


 خلاصہ:

مذکورہ پانچ روایات منگھڑت اور بے اصل ہیں، اس لیے ان کو بیان کرنے اور پھیلانے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ 


📿 احادیث بیان کرنے میں شدید احتیاط کی ضرورت:

احادیث کے معاملے میں بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی بات کی نسبت حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ کی طرف کرنا یا کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس کے لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آجکل بہت سے لوگ احادیث کے معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے، بلکہ کہیں بھی حدیث کے نام سے کوئی بات مل گئی تو مستند ماہرین اہلِ علم سے اس کی تحقیق کیے بغیر ہی اس کو حدیث کا نام دے کر بیان کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں بہت سی منگھڑت روایات عام ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بے اصل اور غیر ثابت روایت بیان کرکے حضور اقدس ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا شدید گناہ اپنے سر لے لیا جاتا ہے۔ 

ذیل میں اس حوالے سے دو احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے اور اس سے اجتناب کیا جاسکے:

1️⃣ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘

110- حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: « ... وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».

2️⃣ ’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو، کیوں کہ جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘

2- عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضى الله عنه يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لا تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ».

ان وعیدوں کے بعد کوئی بھی مسلمان منگھڑت اور بے بنیاد روایات پھیلانے کی جسارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر تحقیق کیے کوئی حدیث بیان کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔


📿 غیر ثابت روایات سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:

بندہ نے ایک روایت کے بارے میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ روایت ثابت نہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی حوالہ دیجیے، تو بندہ نے ان سے عرض کیا کہ: حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا دیا جاسکتا ہے، اب جو روایت احادیث اور سیرت کی کتب میں موجود ہی نہ ہو تو اس کا حوالہ کہاں سے پیش کیا جائے! ظاہر ہے کہ حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا ہوتا ہے، روایت کے نہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ روایت موجود نہیں، باقی جو حضرات اس روایت کے ثابت ہونے کا دعوی ٰ کرتے ہیں تو اصولی طور پر حوالہ اور ثبوت انھی کے ذمے ہیں، اس لیے انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو حضرات کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرتے ہیں اُن سے تو حوالہ اور ثبوت طلب نہیں کیا جاتا لیکن جو یہ کہے کہ یہ ثابت نہیں تو اُن سے حوالے اور ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے! کس قدر عجیب بات ہے یہ! ایسی روش اپنانے والے حضرات کو اپنی اس نامناسب عادت کی اصلاح کرنی چاہیے اور اصولًا انھی حضرات سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے کہ جو کسی روایت کو بیان کرتے ہیں یا اس کے ثابت 

ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

البتہ اگر حوالہ سے مراد یہ ہو کہ کسی محدث یا امام کا قول پیش کیا جائے جنھوں نے اس روایت کے بارے میں ثابت نہ ہونے یا بے اصل ہونے کا دعویٰ کیا ہو تو مزید اطمینان اور تسلی کے لیے یہ مطالبہ معقول اور درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر روایت کے بارے میں کسی محدث اور امام کا قول ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ گزرتے زمانے کے ساتھ نئی نئی منگھڑت روایات ایجاد ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مستند عالم تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ یہ روایت یا واقعہ ثابت نہیں اور وہ اس کے عدمِ ثبوت پر کسی محدث یا امام کا قول پیش نہ کرسکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کا یہ دعویٰ غیر معتبر ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کسی امام یا محدث نے اس روایت کے بارے میں کوئی کلام ہی نہ کیا ہو، بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہو، ایسی صورت میں بھی اس روایت کو ثابت ماننے والے حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روایت کا معتبر حوالہ اور ثبوت پیش کریں، اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ انھی حضرات سے ثبوت اور حوالے کا مطالبہ کریں۔ اور جب تحقیق کے بعد بھی اُس روایت کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ ملے تو یہ اس روایت کے ثابت نہ ہونے کے لیے کافی ہے۔

واضح رہے کہ یہ مذکورہ زیرِ بحث موضوع کافی تفصیلی ہے، جس کے ہر پہلو کی رعایت اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، اس لیے صرف بعض اصولی پہلوؤں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔


📿 ایک اہم نکتہ:

منگھڑت اور بے اصل روایات سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کوئی روایت واقعتًا بے اصل، منگھڑت اور غیر معتبر ہے تو وہ کسی مشہور خطیب اور بزرگ کے بیان کرنے سے معتبر نہیں بن جاتی۔ اس اہم نکتے سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوجاتی ہے کہ جب انھیں کہا جائے کہ یہ روایت منگھڑت یا غیر معتبر ہے تو جواب میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیسے منگھڑت ہے حالاں کہ یہ میں نے فلاں مشہور بزرگ یا خطیب سے خود سنی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی حدیث کے قابلِ قبول ہونے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں بن سکتی کہ میں نے فلاں عالم یا بزرگ سے سنی ہے، بلکہ روایت کو تو اصولِ حدیث کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ غلطی تو بڑے سے بڑے بزرگ اور عالم سے بھی ہوسکتی ہے کہ وہ لاعلمی اور انجانے میں کوئی منگھڑت روایت بیان کردیں، البتہ ان کی اس غلطی اور بھول کی وجہ سے کوئی منگھڑت اور غیر معتبر روایت معتبر نہیں بن جاتی، بلکہ وہ بدستور منگھڑت اور بے اصل ہی رہتی ہے۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

8 صفر المظفّر 1443ھ/ 16 ستمبر 2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے