65a854e0fbfe1600199c5c82

پانچ بے سند روایات


📿 پانچ بے سند روایات:

امت میں کئی ایسی روایات مشہور ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، ذیل میں ایسی پانچ بے سند روایات ملاحظہ فرمائیں:


روایت 1️⃣:

 ’’الدين المعاملة‘‘ یعنی دین سراسر معاملات کا نام ہے۔

 

▪️ حکم:

دین میں معاملات کی درستی اور صفائی کی بڑی اہمیت ہے لیکن مذکورہ الفاظ حدیث کے نہیں ہیں۔


روایت 2️⃣:

 ایک صحابی مسجد تشریف لائے، دو رکعات نفل نماز ادا کی اور دعا مانگ کرکے چلے گئے۔ حضور اقدس ﷺ بھی مسجد میں تشریف فرما تھے، یہ منظر دیکھ کر آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ: کیا تم جانتے ہو کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا مانگا ہے؟ تو صحابہ کرم نے عرض کیا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اس نے اللہ تعالیٰ سے نمک مانگا ہے۔ 

 

▪️ حکم:

یہ بات تو درست اور احادیث کے موافق ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہر چھوٹی بڑی چیز مانگی چاہیے، لیکن مذکورہ روایت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔


روایت 3️⃣:

حضور اقدس ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ: خدیجہ! میرا بستر سمیٹ دو، آج کے بعد میرے آرام کے دن ختم ہوگئے ہیں۔ (یعنی اب مسلسل دین کی دعوت کا کام کرنا ہے۔)


▪️ حکم:

حقیقت یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے دینِ اسلام کی تبلیغ میں جس قدر عظیم الشان محنت فرمائی اور جتنی زیادہ تکالیف اور مشقتیں برداشت فرمائیں وہ روزِ روشن سے بھی زیادہ واضح ہیں جو کہ محتاجِ بیان نہیں، لیکن مذکورہ حدیث کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔


روایت 4️⃣:

جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو انھوں نے حضور اقدس ﷺ سے پوچھا کہ: اے اللہ کے رسول! اب میرا کیا کام ہے؟ یعنی اب مجھے کیا کرنا ہے؟ تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جو میرا کام ہے وہی تمہارا کام ہے۔ (یعنی تم نے بھی اب لوگوں کو کلمہ اور دین کی دعوت دینی ہے۔)


▪️ حکم:

یہ بات تو درست ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد لوگوں کو دین کی طرف دعوت دینے کی بھرپور کوشش فرمائی ہے، لیکن مذکورہ حدیث کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔


روایت 5️⃣:

جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے بد دعا فرمائی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے طوفان بھیج کر ان کی نافرمان قوم کو ہلاک کر ڈالا، تو کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے حضر ت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ مٹی کے چند کھلونے بناؤ۔ جب انھوں نے کھلونے بنالیے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ اب انھیں توڑ دو، جب وہ کھلونے توڑنے لگے تو رنجیدہ ہوئے کہ کتنی محنت سے یہ کھلونے بنائے تھے اور اب انھیں توڑنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ ان کی یہ سوچ اور حالت دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ: نوح! جس طرح آپ کو اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے ان مٹی کے چند معمولی کھلونوں کو توڑنے سے دکھ پہنچا تو اسی طرح آپ کی بد دعا سے میں نے آپ کی جس نافرمان قوم کو ہلاک کر ڈالا تھا وہ بھی تو میرے ہی پیدا کردہ بندے تھے، انھیں ہلاک کرتے ہوئے مجھے کتنی تکلیف پہنچی ہوگی، اس لیے آپ کو ان کے لیے بد دعا نہیں کرنی چاہیے تھی۔


▪️ حکم:

اس روایت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، بلکہ یہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی شان اور دینی نظریات کے بھی خلاف معلوم ہوتی ہے۔


⬅️ خلاصہ:

مذکورہ پانچ روایات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اس لیے ان کو بیان کرنے اور پھیلانے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ 


📿 احادیث بیان کرنے میں شدید احتیاط کی ضرورت:

احادیث کے معاملے میں بہت ہی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ کسی بات کی نسبت حضور اقدس حبیبِ خدا ﷺ کی طرف کرنا یا کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بہت ہی نازک معاملہ ہے، جس کے لیے شدید احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آجکل بہت سے لوگ احادیث کے معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتے، بلکہ کہیں بھی حدیث کے نام سے کوئی بات مل گئی تو مستند ماہرین اہلِ علم سے اس کی تحقیق کیے بغیر ہی اس کو حدیث کا نام دے کر بیان کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں امت میں بہت سی منگھڑت روایات عام ہوجاتی ہیں۔ اور اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی بے اصل اور غیر ثابت روایت بیان کرکے حضور اقدس ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا شدید گناہ اپنے سر لے لیا جاتا ہے۔ 

ذیل میں اس حوالے سے دو احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکے اور اس سے اجتناب کیا جاسکے:

1️⃣ ’’صحیح بخاری‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔‘‘

110- حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: « ... وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».

2️⃣ ’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ: ’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو، چنانچہ جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘

2- عَنْ رِبْعِىِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رضى الله عنه يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «لا تَكْذِبُوا عَلَىَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَكْذِبْ عَلَىَّ يَلِجِ النَّارَ».

ان وعیدوں کے بعد کوئی بھی مسلمان منگھڑت اور بے بنیاد روایات پھیلانے کی جسارت نہیں کرسکتا اور نہ ہی بغیر تحقیق کیے کوئی حدیث بیان کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔


📿 غیر ثابت روایات سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ:

بندہ نے ایک روایت کے بارے میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ یہ روایت ثابت نہیں، تو انھوں نے کہا کہ اس کا کوئی حوالہ دیجیے، تو بندہ نے ان سے عرض کیا کہ: حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا دیا جاسکتا ہے، اب جو روایت احادیث اور سیرت کی کتب میں موجود ہی نہ ہو تو اس کا حوالہ کہاں سے پیش کیا جائے! ظاہر ہے کہ حوالہ تو کسی روایت کے موجود ہونے کا ہوتا ہے، روایت کے نہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ روایت موجود نہیں، باقی جو حضرات اس روایت کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اصولی طور پر حوالہ اور ثبوت انھی کے ذمے ہیں، اس لیے انھی سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو حضرات کسی غیر ثابت روایت کو بیان کرتے ہیں اُن سے تو حوالہ اور ثبوت طلب نہیں کیا جاتا لیکن جو یہ کہے کہ یہ ثابت نہیں تو اُن سے حوالے اور ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے! کس قدر عجیب بات ہے یہ! ایسی روش اپنانے والے حضرات کو اپنی اس نامناسب عادت کی اصلاح کرنی چاہیے اور اصولًا انھی حضرات سے حوالہ اور ثبوت طلب کرنا چاہیے کہ جو کسی روایت کو بیان کرتے ہیں یا اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

البتہ اگر حوالہ سے مراد یہ ہو کہ کسی محدث یا امام کا قول پیش کیا جائے جنھوں نے اس روایت کے بارے میں ثابت نہ ہونے یا بے اصل ہونے کا دعویٰ کیا ہو تو مزید اطمینان اور تسلی کے لیے یہ مطالبہ معقول اور درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہر روایت کے بارے میں کسی محدث اور امام کا قول ملنا بھی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ گزرتے زمانے کے ساتھ نئی نئی منگھڑت روایات ایجاد ہوتی رہتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مستند عالم تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ یہ روایت یا واقعہ ثابت نہیں اور وہ اس کے عدمِ ثبوت پر کسی محدث یا امام کا قول پیش نہ کرسکے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ان کا یہ دعویٰ غیر معتبر ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کسی امام یا محدث نے اس روایت کے بارے میں کوئی کلام ہی نہ کیا ہو، بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہو، ایسی صورت میں بھی اس روایت کو ثابت ماننے والے حضرات کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس روایت کا معتبر حوالہ اور ثبوت پیش کریں، اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ انھی حضرات سے ثبوت اور حوالے کا مطالبہ کریں۔ اور جب تحقیق کے بعد بھی اُس روایت کے بارے میں کوئی بھی ثبوت نہ ملے تو یہ اس روایت کے ثابت نہ ہونے کے لیے کافی ہے۔

واضح رہے کہ یہ مذکورہ زیرِ بحث موضوع کافی تفصیلی ہے، جس کے ہر پہلو کی رعایت اس مختصر تحریر میں مشکل ہے، اس لیے صرف بعض اصولی پہلوؤں کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔


📿 ایک اہم نکتہ:

منگھڑت اور بے اصل روایات سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر کوئی روایت واقعتًا بے اصل، منگھڑت اور غیر معتبر ہے تو وہ کسی مشہور خطیب اور بزرگ کے بیان کرنے سے معتبر نہیں بن جاتی۔ اس اہم نکتے سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہوجاتی ہے کہ جب انھیں کہا جائے کہ یہ روایت منگھڑت یا غیر معتبر ہے تو جواب میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیسے منگھڑت ہے حالاں کہ یہ میں نے فلاں مشہور بزرگ یا خطیب سے خود سنی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی حدیث کے قابلِ قبول ہونے کے لیے یہ کوئی دلیل نہیں بن سکتی کہ میں نے فلاں عالم یا بزرگ سے سنی ہے، بلکہ روایت کو تو اصولِ حدیث کے معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ غلطی تو بڑے سے بڑے بزرگ اور عالم سے بھی ہوسکتی ہے کہ وہ لاعلمی اور انجانے میں کوئی منگھڑت روایت بیان کردیں، البتہ ان کی اس غلطی اور بھول کی وجہ سے کوئی منگھڑت اور غیر معتبر روایت معتبر نہیں بن جاتی، بلکہ وہ بدستور منگھڑت اور بے اصل ہی رہتی ہے۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

6 صفر المظفّر 1443ھ/ 14 ستمبر 2021


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے