65a854e0fbfe1600199c5c82

نظریاتی اختلافات میں ہمارے اکابر کا طرز عمل



 نظریاتی اختلافات میں ہمارے اکابر کا طرز عمل


منشی نورالحسن صاحب ساکن دورالہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے بیعت تھے، نیک صالح شخص تھے. وہ اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ مسلم لیگ کے حامی تھے، حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس کی حمایت میں ایک رسالہ بھی تحریر فرمایا تھا اس لئے میرا رجحان بھی لیگ کی طرف تھا اور میرٹھ حلقہ کی مسلم لیگ کا ممبر بھی تھا. ایک دن ایک میٹینگ میں میں نے کہا کہ بھائی ہمارے حضرت تھانوی رحمہ اللہ لیگ کی حمایت فرماتے ہیں اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ بھی بزرگ ہیں وہ کانگریس کی حمایت فرماتے ہیں، ہم کیا کریں؟ میٹنگ میں ایک شخص نے جواب دیا کہ وہ( حضرت مدنی) کہاں کے بزرگ آئے، وہ کیسے بزرگ؟ مجھے ان کے جواب سے سخت صدمہ ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ اگر مسلم لیگ کے اندر بزرگوں کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے تو ایسی مسلم لیگ سے میرا تو استعفی میں آئندہ شریک نہیں ہوں گا۔ اور اسی صدمہ میں میں تھانہ بھون حاضر ہوا۔ شب میں بھائی سلیمان صاحب سے جو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے خادم تھے ملاقات ہوئی، ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا، اس نے کہا: مدنی صاحب آپ کی نظر میں بزرگ ہیں؟ بزرگ تو شیطان بھی ہوتا ہے. میں نے کہا یہ جواب صبح کو حضرت سے کہوں گا.  اس نے کہا: ہاں کہہ دینا، مجھے اور صدمہ ہوا کہ جب حضرت کے خادم کا یہ حال ہے تو اوروں کا کیا حال ہوگا. پوری رات بے چینی میں گذری. صبح کو مجلس میں حاضر ہوا میری ہمت نہیں تھی کہ عرض کروں. اتفاق ایسا ہوا کہ ایک خط جو حضرت کے پاس کسی نے لکھا تھا حضرت نے سنایا۔ خط کا مضمون یہ تھا:-

"حضرت! میں دیوبند بھی گیا ہوں، وہاں رحمت ہی رحمت دیکھی اور یہاں زحمت. گویا وہاں عفو بے انتہا اور یہاں بات بات پر پکڑ اور نکتہ چینی اس کی کیا وجہ ہے؟" 


حضرت نے جواب لکھا اور پھر جواب بھی سنایا، جس کا مضمون یہ تھا:-

"کیا تمہارے نزدیک دریا اور ڈوکرہ میں کوئی فرق نہیں، میں چھوٹا سا ڈوکرہ ہوں اور حضرت مدنی دریا ہیں. ڈوکرہ ذرا سی ناپاکی کا متحمل نہیں ہوتا اور دریا میں اگر پیشاب بھی کردیا جائے تب بھی وہ ناپاک نہیں ہوتا". 


یہ جواب سن کر مجھے ہمت ہوئی اور میں نے عرض کیا حضرت تو اپنے آپ کو ڈوکرہ اور حضرت مدنی کو دریا فرمارہے ہیں اور یہ ملاّ سلیمان ان کو ایسا ایسا کہتا ہے اور اپنا واقعہ بیان کیا. حضرت نے فرمایا: کیا یہ بات آپ ان کے سامنے کہہ دیں گے۔ میں نے عرض کیا ضرور کہہ دوں گا. ملاّ سلیمان کو بلایا گیا. حضرت نے ان سے فرمایا کہ تم ان کو جانتے ہو. انھوں نے جواب دیا: جی ہاں یہ میرے دوست کے بھائی ہیں. حضرت نے فرمایا تمہاری ان سے کوئی لڑائی تو نہیں. اس نے کہا نہیں، پھر حضرت نے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا اپنا واقعہ بیان کرو. میں نے پورا واقعہ بیان کیا جو میرٹھ مسلم لیگ کی میٹنگ میں پیش آیا تھا کہ یہ واقعہ میں نے سلیمان سے بیان کیا اس نے کہا کہ مدنی صاحب کو تم بزرگ سمجھتے ہو، بزرگ تو شیطان بھی تھا. حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے سلیمان سے کہا یہ ٹھیک کہتے ہیں۔ انھوں نے اقرار کرلیا کہ جی ہاں ٹھیک کہتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ایک دوسرے خادم کو آواز دی اور فرمایا سلیمان کا کان پکڑ کر خانقاہ سے نکال دو اور فرمایا: "آج سے میرا تعلق ختم، نہ مجھ سے بات چیت کی اجازت ہے نہ خط و کتابت کی نہ مجلس میں حاضری کی". 


سلیمان صاحب خانقاہ سے چلے گئے مگر انتہائی پریشان تھے. حافظ محمد اسماعیل پانی پتی( جو حضرت سے خصوصی تعلق رکھتے تھے) کے واسطہ سے حضرت سے خط و کتابت کی اور معافی کی درخواست کی. حضرت نے ارشاد فرمایا جن کی شان میں گستاخی کی ہے ان سے معافی مانگیں اور ان سے( حضرت مدنی‌ رحمہ اللہ) سے لکھوا کر لائیں کہ میں نے معاف کیا. اس کے بعد سوچوں گا کہ کیا فیصلہ کروں. سلیمان صاحب حضرت مدنیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صورتِ حال بیان کی اور معافی چاہی. حضرت مدنی نے معاف کیا اور لکھ دیا "میں نے سلیمان کو معاف کیا آپ بھی معاف فرمائیں" یہ تحریر لاکر حضرت تھانویؒ کی خدمت میں پیش کی. 


حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا: کیا معلوم پورا واقعہ بیان بھی کیا یا نہیں، پورا واقعہ جاکر بیان کریں اور حضرت مولانا اپنے قلم سے لکھیں کہ سلیمان نے یہ واقعہ بیان کیا اور میں نے معاف کیا. چنانچہ یہ دوبارہ حضرت مدنیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ حضرت یہ واقعہ لکھ کر پھر معافی تحریر فرما دیں. حضرت مدنی نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا کہ سلیمان نے یہ واقعہ بیان کیا اور میں نے اس کو معاف کیا اور سفارش کرتا ہوں کہ آپ بھی معاف فرمائیں. اس کے بعد حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے معاف فرمایا اور مجلس میں حاضری کی اجازت دی مگر گفتگو کی اجازت نہیں دی، گفتگو کی اجازت اور بعد میں ہوئی. 


حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے کسی شخص نے کہا حضرت مدنیؒ کے بارے میں کہ "سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔" حضرت تھانویؒ نے ارشاد فرمایا: "بس یہی دیکھا، یہ نہیں دیکھا کہ رات کو بارہ بجے تک بخاریؒ شریف بھی پڑھاتے ہیں"۔


---(مجموعہ افادات: مفتئ اعظم حضرت مولانا مفتی محمود الحسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ ص141)


بہ شکریہ مفتی عبید انور شاہ قیصر 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے