65a854e0fbfe1600199c5c82

مفتی اعظم پاکستان کا جنازہ حضرت شیخ الاسلام کا تفقہ



مفتی اعظم پاکستان کا جنازہ
 حضرت شیخ الاسلام کا تفقہ


✍️ عبدالصمد ساجد

فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی

مدرس جامعہ فاروقیہ لاہور 


حضرت مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی نمازِ جنازہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے احاطہ میں ان کے چھوٹے بھائی اور پچھتر سالہ رفیق کار و زندگی شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی نے پڑھائی۔

جنازہ میں مختلف ممالک خصوصاً پاکستان کے تمام صوبوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی کے فیض یافتگان اور حضرت مفتی اعظم مرحوم کے تلامذہ، معتقدین و محبین، متعلقین و مریدین اور دیگر مسلمانوں نے شرکت کی۔ تاحدِ نگاہ لوگوں کے سر تھے، مسجد کا ہال، بر آمدہ، صحن، وضو خانہ ، بالائی منزل، تہ خانہ بھر جانے کے بعد مسجد کی تینوں اطراف میں وسیع شاہراؤں اور احاطہ میں شرکاء کا ہجوم تھا، جنازہ میں متعدد کراچی کے مدارس کے طلبہ و اکابر علماء کے علاوہ نامور علماء و مشائخ نے شرکت کی، جس میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب ، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ، مولانا اورنگزیب فاروقی ، مولانا مفتی محمد زبیر صاحب و دیگر شامل ہیں۔

جنازہ سے قبل شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی نے اپنے بڑے بھائی مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت و کردار پر مختصر و جامع گفتگو فرمائی۔جس میں انہوں نے فرمایا کہ:

" آج اس موقع پر اظہارِ غم کے لیے الفاظ کا کوئی ذخیرہ نہیں ہے،وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے لیکن چونکہ انہوں نے حفظِ قرآن کریم کیا اور میں حفظ نہیں کرسکا، اس لیے درس نظامی میں مجھے ان کا ساتھ مل گیا، اور پھر تاحیات انفرادی و اجتماعی معاملات میں ہم ساتھ رہے،اور آج پچھتر سالہ رفاقت ٹوٹ گئی،انہیں علماء کرام نے متفقہ طور پر مفتی اعظم کا لقب دیا،یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے، سرکاری طور پر جب کسی کو مفتی اعظم کہا جاتا ہے تو اس میں مختلف مفادات اور تعلقات کا عمل دخل ہوتا ہے، لیکن اس میدان کے ماہرین جو علم و فتویٰ کی اہمیت سے واقف ہیں ان کی طرف سے انہیں مفتی اعظم کا لقب ملنا بہت بڑی بات ہے" (خلاصہ و مفہوم)

اس کے ساتھ حضرت شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے پاکستان کے کونے کونے سے اور مختلف ممالک سے تشریف لائے معزز مہمانان و علماء و شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔۔ اور فرمایا کہ یہ ایمانی جذبہ ہے جو آپ کو یہاں تک لایا۔

اس کے بعد حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اکلوتے بیٹے ڈاکٹر مولانا مفتی محمد زبیر اشرف عثمانی مدظلہم نے مختصر گفتگو کی، جس میں فرمایا کہ:

"طویل علالت کے باوجود والد صاحب کا چہرہ وفات کے بعد بالکل تازہ اور کھلا ہوا ہے الحمد للّہ۔ان کا ماضی روشن تھا، مالی معاملات میں انتہائی محتاط تھے، اور حسنِ انتظام میں اپنی مثال آپ تھے،طلبہ کرام کے ساتھ ہمیشہ شفقت و محبت والا معاملہ فرماتے،کافی پہلے ایک بار ایسا ہوا کہ کسی طالب علم نے حضرت سے شکایت کی کہ آج کھانا ٹھیک نہیں بنا ہوا،ہمارے ذہن میں ذہن میں تھا کہ حضرت طالب علم کو سمجھائیں گے،مگر حضرت کا فورا رنگ بدل گیا،اور ہمیں فرمایا کہ فوراً طلبہ کو باہر سے کھانا منگوا کر دو اور کھلاؤ " (ملخصاً و مفہوماً)

بعد ازاں حضرت شیخ الاسلام مدظلھم نے صف بندی کا اعلان فرمایا، اور نمازِ جنازہ پڑھائی۔

نمازِ جنازہ میں مائیک قریب ہونے کی وجہ سے حضرت کے کچھ کلمات بھی اسپیکر میں سنائی دے رہے تھے،جس میں سورہ فاتحہ کے الفاظ بھی شرکاء نے سنے، اس پر بعض احباب نے بطور مسئلہ وضاحت بھی پوچھی اور سوال بھی پیدا ہوا،کیونکہ عموماً ہمارے ہاں نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی جاتی۔

گزارش آنکہ فقہ حنفی میں نمازِ جنازہ میں بطور دعا سورہ فاتحہ کا پڑھنا درست ہے، البتہ بطور قراءت سورہ فاتحہ نمازِ جنازہ کا حصہ نہیں ہے

اعلاء السنن میں محدث ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے بھی اس مسئلہ کی توضیح فرمائی ہے۔ جبکہ دیگر بعض فقہاء شوافع حنابلہ وغیرہ کے نزدیک دیگر نمازوں کی طرح نمازِ جنازہ میں بھی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، ان کی دلیل مشہور حدیث ہے:

لاصلاة إلا بفاتحة الكتاب ہے یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہے، احناف اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ نمازِ جنازہ صلاۃ کاملہ نہیں ہے بایں طور کہ اس میں رکوع و سجود نہیں ہے، بلکہ نمازِ جنازہ کی اصل دعا ہے، اس لیے نمازِ جنازہ میں قراءت نہیں ہے البتہ بطور دعا فاتحہ کا پڑھنا درست ہے۔

بہرحال دلائل و اختلاف سے قطع نظر حضرت شیخ الاسلام مدظلھم کا یہ عمل بہت پسند آیا کہ اس سے بالاتفاق نمازِ جنازہ درست ہوجاتی ہے، اور اپنے مذھب کی مخالفت بھی لازم نہیں آتی۔

دورہ حدیث کے سال شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب شرح الشمائل میں ایک بات پڑھی تھی وہ یاد آگئی، میری یادداشت کے مطابق اس میں ایک جگہ یہ مسئلہ لکھا ہے کہ احناف کے ہاں رمضان المبارک کے روزہ کی نیت نصف النہار شرعی تک کی جاسکتی ہے، تاہم امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صبح صادق سے پہلے نیت کرنا ضروری ہے۔ اس پر حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ افضل یہ ہے کہ صبح صادق سے پہلے ہی نیت کرلے، تاکہ بلا اختلاف روزہ درست ہوجائے۔

الحاصل اس عمل سے حضرت شیخ الاسلام مدظلھم کی اعمال و عبادات میں احتیاط اور تفقہ کا معمولی سا اندازہ ہوتا ہے۔


والسلام

21 نومبر 2022ء

25 ربیع الثانی 1444ھ شبِ پیر

(رات ایک بج کر چالیس منٹ کراچی سے لاہور سفر کے دوران)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے