65a854e0fbfe1600199c5c82

شارٹ ویڈیوز کا بلاخیز طوفان

 

شارٹ ویڈیوز کا بلاخیز طوفان............

 نسل انسانی کے لیے تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج!


ڈرامہ فلم یا کسی بھی انڈسٹری کی موویز یا اس کے علاوہ کسی بھی غیر انسانی و غیر اخلاقی مواد تک رسائی کے لیے آپ کو کوشش اور سعی کرنی پڑتی ہے۔ مثلا آپ کوئی مووی دیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ کو اس کا علم ہو، ثانیاً یہ لازم ہے کہ آپ کو اس مووی تک رسائی دلانے والے پلیٹ فارم کا پتہ ہو، پھر ثالثاً یہ ناگزیر ہے کہ آپ اس کو ارادتاً تلاش کریں، اس کے بعد کہیں جاکر آپ اس مواد تک پہنچیں گے، بل کہ بیشتر صورتوں میں تو آپ کو کسی بھی مواد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پیسہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے، (مثلا سبسکرپشن وغیرہ) پھر انٹرنیٹ کا وافر استعمال جو کرنا پڑتا ہے وہ الگ رہا۔ کم از کم درجہ یہ ہے کہ آپ کو ان مواد سے لطف اندوزی کے لیے اچھی خاصی مقدار میں انٹرنیٹ تو استعمال کرنا ہی ہوگا۔

نیز ان سب کے علاوہ عموماً نوعمری میں انسان کے اپنے کسی بھی سرپرست مثلا : والدین، بڑے بھائی بہن یا استاذ وغیرہ کی نگاہوں سے ان سرگرمیوں کو پوشیدہ رکھنے کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔


 بیان کردہ پورے پروسیس سے گزرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی، مثلا کسی کو ان چیزوں کے متعلق خاطر خواہ علم ہی نہیں ہوتا، کسی کے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے، کوئی ان چیزوں پر پیسہ خرچ کرنے کی سکت نہیں رکھتا، کوئی تو انٹرنیٹ بھی اس فراخدلی کے ساتھ استعمال کرنے کی قدرت نہیں رکھتا، پھر اس کے سوا ان تمام مواد تک رسائی کے لیے آپ کے پاس کسی نا کسی درجے میں پرائیویسی ہونی بھی ضروری ہے، مثلا یہ کہ کم از کم آپ کا ذاتی موبائل ہو، جب کہ ابتدائے عمر میں ایک بڑی تعداد اس سہولت تہی داماں ہوتی ہے، اور اپنے والدین کے موبائل فونز استعمال کرتی ہے۔ اور ذاتی موبائل کے باوجود خاصی تعداد ایسی ہے جن کا موبائل بڑوں کی نگہداشت میں رہتا ہے۔ ان کے لیے اس طرح کی سرگرمی میں ملوث ہوکر اسے چھپا لے جانا کی اضافی سردردی بھی رہتی ہے۔


اب آجاتے ہیں شارٹ ویڈیوز کی جانب۔ شارٹ ویڈیوز اور ریلز تک رسائی کے لیے ان میں سے کسی بھی قید اور بندھن کا ہونا ضروری نہیں۔ نہ آپ کو علم چاہیے نہ ہی ارادہ۔ نہ کسی سبسکرپشن یا اضافی خرچ کی ضرورت ہے نہ ہی بہت زیادہ انٹرنیٹ کی حاجت۔ نہ آپ کے لیے مسلسل کثیر وقت صرف کرنا ناگزیر ہے کہ کوئی مصروفیت آڑے آسکے، نہ پرائیویسی لازم ہے کہ آپ کے پاس ذاتی موبائل کا ہونا ہی ضروری ہو، نہ ہی سرپرستوں کے علم میں آنے کا کوئی خدشہ کہ اس کے لیے اضافی کد و کاوش کرنی پڑے۔ بل کہ آپ کسی بھی وقت کسی کے بھی موبائل میں بغیر کسی ارادے کے فیسبک، انسٹا گرام یا یوٹیوب جیسا کوئی بھی پلیٹ فارم اوپن کریں، ریلز اور شارٹ ویڈیوز کا غیر محدود ریلا آپ کی نگاہوں کے سامنے سے ازخود بہنا شروع ہو جائے گا۔


پھر ان تمام چیزوں کے علاہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اول الذکر سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے لیے عمر کی مخصوص حد کو پہنچنا ضروری ہے، پیدا ہونے کے بعد فی الفور ان میں سے کوئی بھی سرگرمی انجام نہیں دی جاسکتی، جب کہ شارٹ ویڈیوز کے سمندر میں بہنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں، ساڑھے تین چار سال کا بچہ موبائل سامنے رکھ کر تھوڑی بہت انگلیاں مارنا سیکھ جاتا ہے، بس شارٹ ویڈیوز کے سمندر تک رسائی کے لیے اتنی ہی قدرت کا ہونا شرط ہے یعنی ایک ساڑھے تین چار سال کا بچہ جسے ڈرامے مووی، یا کسی اور غیر اخلاقی انڈسٹری کا ذرہ برابر علم نہیں ہوتا، شارٹ ویڈیوز اس تک بھی مکمل طور پر رسائی کی قوت رکھتی ہیں اور اس کچے اور خام ترین دماغ کو اپنے غلیظ بےہودہ اور گھٹیا مواد کے ذریعے آلودہ کرنا شروع کر دیتی ہیں، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس معصوم عمر میں شارٹ ویڈیوز کے غلیظ چوڑے کے اندر ایک بھولے اور خام دماغ کے لتھڑجانے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں۔ شارٹ ویڈیوز کے دور میں پروان چڑھنے والی نسل جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے گی تو اس کے فکر و نظر اور اخلاق و نفسیات کا کیا عالم ہوگا؛ مجھے اس کا تصور بھی محال محسوس ہوتا ہے۔


ان وجوہات کی بنیاد پر راقم کی نگاہ میں شارٹ ویڈیوز انسانی نسل کو تباہ کرنے اور فحاشی و بداخلاقی گھر گھر سرایت کرنے میں ابھی تک کا سب سے تباہ کن اور ہولناک ہتھیار ہے کہ سماج کی بربادی کے لیے اتنی آسانی سے ایسے بھیانک اثرات ثبت کرنے والا کوئی اور ہتھیار وجود میں نہیں آسکا۔


سید أحمد

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے