65a854e0fbfe1600199c5c82

فضلاے کرام کی نشست سے حضرت مولانا محمد زاہد صاحب کا خطاب


 جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں فضلاے کرام کی نشست سے حضرت مولانا محمد زاہد صاحب کا خطاب

21؍دسمبر 2013ء بہ روز ہفتہ کو جامعہ اسلامیہ امدادیہ ، فیصل آباد میں اس کے قدیم و جدید فضلاے کرام(Alumni) کا اجتماع ہوا، جس میں کافی تعداد نے شرکت کی۔صبح کی پہلی نشست میں پہلے بعض فضلا نے اپنے تاثرات، تجربات اور تجاویز بیان کیں اور اس کے بعد جامعہ کے روح رواں شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہد صاحب اور سرپرستِ جامعہ حضرت مولانا مفتی طیب صاحب زیدت معالیہما نے فضلاے کرام سے خطاب فرمایا۔ دونوں کے خطاب میں بڑی کارآمد باتیں سننے کو ملیں۔حضرت مولانا زاہد صاحب کے خطاب کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔

 مولانا نے اپنے خطاب میں فضلا کو تین نصیحتیں کیں۔

1- پہلی نصیحت یہ فرمائی کہ آپ لوگ جو بھی عمل کرو، اسے پوری محنت، یک سوئی اور لگن سے کرو، اس کو محض بوجھ اتارنے کے انداز میں نہ کیا جائے۔ اس طرز کو عربی میں إتقان العمل کہتے ہیں، یعنی کام کو خوب سے خوب تر انداز میں کرنا۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر کو جب دیکھا کہ اس میں ایک جگہ کھدائی کچھ صحیح انداز میں نہیں ہوئی تو اس خلا کو پر کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا عَمَلَ عَمَلًا، أَحَبَّ اللهُ أَنْ يُّتْقِنَه. "اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب انسان کوئی عمل کرے تو اسے اچھی طرح کرے۔" (طبرانی، المعجم الکبیر، باب السین، رقم: 776) حالاں کہ قبر میں یہ معمولی کمی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا، لیکن چوں کہ دیکھنے میں دیدہ زیب نہیں تھا اس لیے آپ علیہ السلام نے اس کا حکم دیا۔یہ 'اتقان' خود اللہ کی سنت ہے جس کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (النمل: من الآية 88) آج کی یورپی اقوام میں لاکھ کمیاں سہی لیکن ان کے دنیا پر غلبے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں اس 'اتقانِ عمل' کا وصف موجود ہے، جب کہ مشرقی اقوام میں یہ کمی پائی جاتی ہے۔پیسہ اہلِ مغرب کے پاس بھی ہے لیکن اس کی وجہ سے وہ کاہل اور تن آساں نہیں ہوئے لیکن بہت سے مسلمان ملکوں کو پیسے نےسہل انگار بنا کر رکھ دیا۔

2- دوسری اور نہایت کار آمد نصیحت یہ فرمائی کہ اپنے علم کو پیچھے کی طرف لے جائیں اور علماے سلف کی علمی روایت کا ادراک حاصل کریں۔اس آگاہی سے تنگ نظری ختم ہوتی ہے۔(مولانا کی یہ بات اس اعتبار سے بہت کار آمد ہے کہ بعض اوقات کسی موقف کے حوالے سے کوئی دوسرا آدمی کوئی بات کہ رہا ہوتا ہے جو کہ علماے سلف کے ہاں کسی کے ہاں مل جاتی ہے،لیکن ہمارے علم میں نہ ہونے کی وجہ سے ہم کو وہ 'اکابر کے طرز کے خلاف' معلوم ہوتی ہے۔ راقم)

3- تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ غیبت، خصوصا اہلِ علم کی غیبت سے نہایت گریز کیا جائے۔کیوں کہ :لُحُومُ العُلَمَاءِ مَسمُومَۃ۔(اہل علم کا گوشت زہریلا ہوتا ہے۔) کسی صاحب علم، خواہ وہ اپنی جماعت اور فرقے کے علاوہ کسی فرقے کا ہی کیوں نہ ہو،کے خلاف اگر تہمت ، الزام تراشی ، نکتہ چینی اور پروپیگنڈہ ہو رہا ہو تو کبھی بھی اس کا حصہ نہ بنو۔میرا تجربہ بلکہ تاریخ کا تجربہ ہے کہ اس طرح کی چیزوں کو کبھی بقا نہیں ہوتی۔ امام بخاری کے خلاف وقت کے بہت صاحب علم لوگوں نے فتوے کا بازار گرم کیا لیکن آج ان کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں۔اپنے طبقے کے علاوہ دیگر طبقوں کے اہلِ علم کا احترام بہ حیثیت صاحب علم ہونے کے ضروری ہے۔جب علماے دیوبند کی طرف نسبت رکھنے والے حضرات میں حیات و ممات کے مسئلے پر زور دار بحث جاری تھی تو حضرت مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ نے ملتان تشریف آوری کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’افسوس عالم کا بحیثیت عالم احترام باقی نہیں رہا‘‘۔ اس کی تشریح میں والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اپنے نظریے اوراپنی ’پارٹی‘ کے عالم کا احترام کرنا کمال نہیں ہے، محض علم کے احترام کا اندازہ تب ہوتا ہے جب سامنے دوسری پارٹی کا عالم ہو۔

حضرت کی یہ باتیں یقینا رجحان ساز باتیں ہیں اور اِن میں اُن سلیم طبیعتوں کے لیے بہت کچھ راہ نمائی کا سامان موجود ہے جو دل میں دین کا درد رکھتی ہیں۔اگرچہ بندے کی نظر میں اس طرح کی باتوں پر مولانا حالی کا یہ شعر حسبِ حال ہے کہ:

مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر

شہر میں حالی نےکھولی ہے دُکاں سب سے الگ

تاہم فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ(جھاگ اڑ جاتا ہے اور نافع کو بقا ہوتی ہے۔)کے مصداق ان شاء اللہ یہ وژنری باتیں اثر انگیز ہوں گی اور بہت سے فضلا کے لیے غور وفکر کا سامان مہیا کریں گی۔

اللہ تعالی ان کو ہمارے لیے نافع بنائے۔آمین

شنیدم آں چہ از پاکانِ امت

ترا با شوخئ رندانہ گفتم


از وال مولانا سید متین احمد

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے