65a854e0fbfe1600199c5c82

نکاح کے بعد دل آزاد تھا، قید ہو گیا اور قید تھا، آزاد ہو گیا



 السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ

بھائی عقیل احمد


یہ خط کی شکل میں تحریر لکھ رہا ہوں. مضمون یہ ہے کہ کسی ایسے شخص نے بتائے ہوے احوال بتانے ہے جس کا حال ہی میں نکاح ہوا اور وہ بھائی اپنے دل کی کیفیات کے بارے میں فکرمند رہنے والے، انھوں نے نکاح کے بعد جو اپنے کیفیات بتائے وہ لکھ رہا ہوں۔


کہتے ہے کہ نکاح کے بعد دل آزاد تھا، قید ہو گیا اور قید تھا، آزاد ہو گیا. 

وہ کیسے؟ کہا کہ پہلے خیالات وساوس سب آسانی سے آ جاتے تھے، دل کہیں پر بھی جانے کے لئے آزاد تھا. اب جب کہ کسی کے ساتھ جڑ گیا تو قید ہو گیا. اگر کسے غیر کا خیال آئے تو یہ ڈر رہتا ہے کہ اسکا قرض اس عورت سے نہ ادا کیا جائے جسکو اللہ نے اپنے ساتھ جوڑ دیا ہے. اس سے کئی ایسے گناہ جو بغیر اس سبب، یعنی نکاح کے، چھوڑنا مشکل لگتے تھے، اب بآسانی چھوٹ گئے.

اور دل قید تھا، کسی کے بارے میں کوئی خیال آنا یہاں تک کہ کسی عورت کو دیکھو اور اسکا تصور دل میں آئے اور تصویر دل میں بیٹھ جائے تو بھی گناہ تھا. اب اپنی بوی کو (اور بوی شوہر کو) دیکھ کر دل کو چاند تک لے جائے تو بھی الٹا اللہ کی رضا کا سبب بنتا جائے. تو اب دل بالکل آزاد ہو گیا ہے. کال، ویڈیو کال، آڑیو میسج، چیٹنگ(chatting) ، ملنا، چھونا، پیار کرنا، سب سب صواب کی چیز بن گئی.

نکاح جیسے کوئی روحانی علاج کا عمل ہو جس سے اندر کے رزائل کا علاج ہوتا ہو، جیسے اللہ کے قرب کے مقامات طے ہؤے ہوں، ولایت کے درجات حاصل ہؤے ہوں. ہاں لیکن جب ہی کہ نکاح کو عبادت کے طور پر دیکھا جائے. اگر سنت شریعت کے مطابق ہو تو یہ فائدے حاصل ہے. ورنہ اگر جشن منایا عبادت تو کی ہی نہیں، تو روحانی فائدے کیسے حاصل ہو؟ اسکی مثال ایسی ہے جیسے نماز، نماز میں روحانی فائدے ہے. اللہ کا قرب ہے، گناہوں کی معافی ہے، فحش اور منکر سے روک ہے، لیکن اگر کوئی منمانی نماز بنائے، اس میں ناچ گانے، لائٹنگ کی سجاوٹ، آتشبازی کو نماز کہے، تو جب کہ نماز باقی ہی نہ رہی، تو اب اس سے ملنے والے فائدے بھی ختم! ہاں چونکہ ایجاب و قبول، 2 گواہ، مہر، کچھ شرعی باتیں برقرار ہے، انکی برکات حاصل ہو جاتی ہےاور غالب خباثت ہوتی ہے، تو انکی نحوست آ جاتی ہے. خیر... 

آگے کہا کہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہتا ہوں، لیکن جزبات اور الفاظ میں اتنا زیادہ فرق آرہا ہے کہ بس بے چینی کی حالت ہے کہ الفاظ میں اظہار ہو ہی نہیں پا رہا. ویسے بھی کونسی اللہ کی نعمت ایسی ہے جس کا شکر ادا ہو سکتا ہے...؟ اس معاملے میں لیکن اتنی بے بسی ہے... کیونکی یہ جو دل کی حالت بتائی اس کے لئے کتنا اللہ کا شکر کیا جائے؟ . کتنے خاک چھانے کتنے مجاہدے کئے کہاں کہاں پہونچ گئے کہ امراض کا علاج ہو. لیکن سب جگہ نا امیدی! اور نکاح سے ایسے حل ہو گیا جیسے بجلی کے جھٹکے سے کسی کو مار دیا جائے تو وہ جتنی جلدی ٹھنڈا ہوتا ہو.

آگے لا یشکر اللہ من لا یشکر الناس کے لئے ان لوگوں کا شکر گزار ہوں جو اس نیک کام میں کسی بھی طرح حصہ دار بنیں. ان میں سر فہرست میرے والدین. اللہ ان سب والدین کو خوب خوش رکھیں جو اپنی اولاد کا وقت پر نکاح کراتے ہیں. زمانے کے حساب سے نکاح کی جتنی ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر اللہ صرف اس عمل کی وجہ سے انکے سارے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیں، مغفرت کر دیں، تب بھی اللہ کے وسیع رحمت، قدردانی اور غیرت سے کچھ بھی بعید نہیں. وجہ اسکی یہ ہے - 

1. انکی اپنی زمہ داری جو اللہ نے انپر ڈالی ہؤی ہے

2. اگر بچے ابھی کمائی می اتنے خد مختار نہیں ہوے ہے تو جو مشقت والدین برداشت کرینگے اس قربانی کا اجر

3. سب سے ضروری اور بڑی بات، معاشرے کی اس عمل سے دوری. نکاح کو لے کر جو خرافات ہے، اگر والدین اسکے خلاف سنت و شریعت کے موافق اور وقت پر نکاح کرا کر دین کے ایک عظیم الشان عمل کو زندہ کرینگے، اللہ کی غیرت سے قوی امید یہی ہے کہ اگلے پچھلے گناہ معاف ہونگے.

بھائی یہ کچھ باتیں بتانی تھی. بڑی مزیدار لگی اور کام کی بھی. 

فقط.

============


 انشاء اللہ سمجھ آئنگا ہی

لیکن بتا دوں

آپکی بیوی وہی ہستی ہے جو ازل میں آپکی بنا دی گئی تھی اور اسی کے لئے سارے جتن تھے.

نظروں کی حفاظت اسی لئے تھی کہ اپنی بیوی کا حق تھا آپ اسی کو دیکھیں

دل کی حفاظت اسی لئے تھی کہ اس میں اسی کے لئے جگہ ریزرو تھی.

اب وہ جس کے لئے بچتے بچاتے چل رہے تھے، اب وہ حاصل ہو گئی ہے.

اب الفاظ، اشارے، دل، محبت اور *سب* ہی کو آزاد کر دو.

اظھار محبت کو عبادت سمجھو

والدین سے اظھار محبت میں ادب کا عنصر ہوتا ہے، یہ دل میں نہ آنے دو کہ والدین کو تو کبھی یہ نہیں کہا کہ آپ ایسے ہے اور ایسے ہے (اظھار محبت) تو اب بیوی کو بولنے کا مطلب اسے انپر ترجیح دینا تو نہیں؟ اس رشتہ میں اظھار محبت ایک نمایاں اور ضروری عمل ہے

کیونکہ والدین کا رشتہ ٹوٹ نہیں سکتا، یہ رشتہ نازک ہے.

ایسے اسباب پیدا کرو جس سے ایک دوسرے سے بندھے رہو. اور کام آسان بھی ہے. محبت کے چند بول بھی بہت بڑا کام کر دیتے ہے.

اور بیوی کو اسکے والدین کے گھر سے کچھ اضافی بات ملے، زندگی بہتر ہو، یہ آپکی زمہ داری ہے.

آپ کو اتنی ترغیب اس لئے دے رہا ہوں تاکہ میں بھی اپنے باتوں سے بندھ جاؤں.

فقط.

بندہ عقیل احمد.

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے