65a854e0fbfe1600199c5c82

 ایک بار سہہ روزے کے دوران بطور نصرت ( جب جماعت کے لیے کوئی تحفہ لائے ) بکرے کی سالم ران آ گئی ۔ اُس دن میں خدمت پر مامور تھا یعنی میرا کام صرف کھانا پکانا وغیرہ تھا ، جماعت کے باقی معمولات سے تقریباً رخصت ہوتی ہے ۔

خدمت پر کم از کم دو افراد مامور ہوتے ہیں ۔ میرے ساتھ میرا ہم عمر ہی ایک لڑکا تھا ۔ 

ہم نے بکرے کا گوشت پکانے کے لیے سبزی ، مصالحے وغیرہ خریدے اور کام میں جت گئے ۔

میں نے گھی میں پیاز ڈال کر لال کرنا شروع کیا تو یاد آیا کہ ٹماٹر تو کاٹے ہی نہیں ۔

ساتھ والے لڑکے سے کہا کہ وہ حسب ذائقہ ہلدی ہے اور نمک ہے اور مرچ ہے ، پیاز ہلکا بھورا ہو جائے تو ڈال دینا ۔

میں ٹماٹر کاٹ رہا تھا اُس نے ہلدی کا پوچھا کہ ڈال دوں ، بتایا کہ ہاں ، پھر نمک کا پوچھا تو بتایا کہ ڈال دے ۔۔۔۔ اب آواز آئی مرچ ۔۔۔۔ میرے منہ سے خودکار طریقے سے نکلا کہ ڈال دے ۔۔۔ دوسرے ہی لمحے یاد آیا کہ مرچ حسب ذائقہ الگ تو کی نہیں تھی ، دیکھا تو وہ لڑکا مرچ کا پورا ڈبہ دیگچے میں جھاڑ چکا تھا ۔

میرے پسینے چھوٹ گئے کیونکہ امیر صاحب بکرے کے گوشت کے معاملے میں دین سے بھی زیادہ جذباتی تھے ۔

خیر سالن میں پانی زیادہ کر دیا لیکن شوربہ خون سے بھی زیادہ سرخ تھا کہ مرچ بیچنے والے مسلمان بھی رنگ ، مرچ کے ہمراہ مفت دیتے ہیں ۔

بوقت ظہرانہ ( لنچ ) دیگچا دسترخوان پر پہنچایا ۔ لڑکے سے کہا کہ کچھ بھی ہو جائے تم چپ رہنا ۔

دس بارہ افراد کی جماعت تھی ۔

امیر صاحب کے سامنے جب سالن کی پلیٹ پیش کی گئی تو کچھ بدکے اور فرمایا کہ یہ سالن اتنا سرخ کیوں ہے ۔

میں نے کہا کہ "" بکروں کی بہت نسلیں ہوتی ہیں ، اس نسل کا سالن سرخ ہی بنتا ہو گا "" 

ابھی کسی دوسرے تک روٹی نہیں پہنچی تھی ، امیر صاحب نے پہلا لقمہ منہ میں ڈالا اور حلق سے عجیب سی آواز نکالتے ہوئے وضو خانے کی طرف دوڑے ۔ باقی سب حیران کہ یہ کیا ہوا ۔ اتنی دیر میں باقی سب کے سامنے بھی روٹی پہنچ چکی تھی اور پہلا لقمہ منہ میں ڈالتے ہی سب باری باری وضو خانے کی طرف دوڑ رہے تھے ۔

ہم دونوں خادموں نے سالن چکھا بھی نہیں ۔

امیر صاحب اپنا منہ اچھی طرح مانجھ کر آئے اور شدید غصے کے عالم میں پوچھا کہ بکرا کس نے پکایا ہے ؟

میں نے فوراً اعتراف جرم کر لیا ۔

جانتے ہو بکرے کا گوشت کتنا مہنگا ہوتا ہے ؟ اور نصرت میں بہت کم ہی کوئی بکرے کا گوشت لاتا ہے ، تین چار کلو تو ہو گا ، تم نے سب برباد کر دیا ۔

امیر صاحب نان اسٹاپ برس رہے تھے ۔ جب تھک گئے تو میں نے اپنا تکیہ اور بستر لپیٹنا شروع کر دیا ۔ تین دن ہوتے ہیں شاید وہ دوسرا دن تھا ۔ امیر صاحب اچانک ٹھٹھک گئے اور پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟؟؟ 

میں نے کہا کہ امیر صاحب تعلیم کے دوران ہم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے واقعات سناتے ہیں کہ کیسے گرم ریت پر گھسیٹے جاتے تھے ، مصعب بن عمیر رض جیسے شہزادے کے بدن پر شہادت کے بعد کفن پورا نہیں آ رہا تھا ، شعب ابی طالب میں صحابہ کرام رض سوکھے چمڑے ڈھونڈتے تھے کہ چبانے کو مل جائیں اور طائف کے واقعے کا کیا بتاؤں ۔۔۔۔

یہاں دین کی محنت کے دوران بکرے کا گوشت خراب ہو گیا ہے تو جیسے قیامت آ گئی ہو ، یہ دین کی محنت ہے یا کوئی پکنک ہے ؟ میں کوئی باورچی تو نہیں اور جو ہوا غلطی سے ہوا ۔ ایک طرف ہم بتاتے ہیں کہ جو ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور دوسری طرف سالن میں مرچ زیادہ ہو گئی تو """ وہ میں نے کیا ہے """ 

میں جا رہا ہوں آپ منائیے پکنک ۔۔۔۔۔۔۔۔

امیر صاحب بہرحال انسان ہی تھے اور انسان بھی بہت مہربان سے ۔۔۔۔۔۔ فرمانے لگے کہ ارے بیٹا ہم سیکھتے ہی تو ہیں ورنہ گھر میں ہی بیٹھے رہتے ۔

لیکن "" بکرے کا گوشت "" وہ پھر اداس ہو گئے ۔

میں نے کہا کہ رات کے کھانے میں کھلاؤں گا ان شاءاللہ 

میں نے گوشت سالن سے الگ کر کے اچھی طرح گرم پانی سے دھویا اور پھر نہایت احتیاط کے ساتھ پیاز ٹماٹر کو خوب بھونا تا کہ بے ذائقہ گوشت میں کچھ ذائقہ آ جائے ۔۔۔۔

رات کے کھانے پر کچھ ساتھی رونے بھی لگے کہ صحابہ کرام رض نے کیسے ہم تک یہ دین پہنچایا اور ہم اپنی خوراک میں مصالحہ کم زیادہ ہونے پر بھی اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔

مؤرخ گواہ ہے کہ ایک عرصے تک اُس جماعت میں دوبارہ کھانے کا ذائقہ کبھی موضوع نہیں بنا :) 

۔۔۔۔۔

عابی مکھنوی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے