65a854e0fbfe1600199c5c82

کرسمس ڈے اور نادان دوست

 تحریر: مفتی عبید انور شاہ قیصر


کہاوت مشہور ہے کہ نادان دوست کے مقابلے دانا دشمن بھلا ہے. یہ بات ہمارے بعض سادہ لوح نادان مسلمانوں پر بخوبی صادق آتی ہے، یہ لوگ مغربیت سے متاثر ہونے کی بنا پر، یا دیسی لبرلوں کے بیہودہ اعتراض سے مرعوب ہونے کی بنا پر اور اکثر اوقات دینی علم سے ناواقف ہونے کی بنا پر شرعی مسائل میں حد سے تجاوز کرتے اور مسائل کی تفہیم میں اپنی عقلِ محض کو دلیل بناتے ہیں! شرعی مسائل کسی کی جاگیر نہیں ہیں کہ اسے جو صحیح لگے وہ صحیح مانا جائے اور جو اسے غلط لگے وہ غلط قرار دیا جائے. قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط و استخراج نہایت گہرا، مشکل، پیچیدہ عمل ہے جو صرف اہلِ علم کو زیبا ہے. باقی کے لیے مجالِ تکلم نہیں. لیکن لوگوں نے اس کام کو بازیچہ اطفال سمجھ لیا ہے. وہ لوگ جن کا کل سرمایۂ علم چند اردو کتابوں اور تراجم کا مطالعہ ہے وہ شرعی مسائل میں رائے زنی کی جسارت کرتے ہیں اور سمجھایا جائے تو طعن و تشنیع پر اتر آتے ہیں. اگر کوئی شخص غلطی کرتا ہے اور اسے اس جانب توجہ دلائی جاتی ہے تو اس غلطی کی اصلاح تب ہی ممکن ہے جب غلطی کرنے والا اولاً تو ضد، ہٹ دھرمی، تعصب وغیرہ سے پاک ہو، ساتھ ہی یہ ضروری ہے کہ اسے کم از کم اتنا بنیادی علم ہو کہ سمجھانے والے کی بات سمجھ سکے، ورنہ نتیجہ بھینس کے آگے بین بجانے کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا. یہ نادان دوست عموماً دونوں شرطوں سے خالی ہوتے ہیں لہذا ان سے گفتگو و مباحثہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا. 


کرسمَس ڈے کے موقع پر ہمارے ان نادان دوستوں نے آسمان سر پر اٹھائے رکھا اور ایک خالص علمی و شرعی مسئلہ میں بیباکی بلکہ بے شرمی کے ساتھ ذاتی آراء کو عینِ شرع ثابت کرنے کی کوشش کی. عقل سے بعید ایسے قیاس پیش کئے جنہیں پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا کہ ہمارے سو کالڈ (اعلیٰ) تعلیم یافتہ طبقہ میں دینی علم کے تعلق سے کس قدر جہالت ہے. ایک صاحب جن کی تعلیمی لیاقت ٹھیک ٹھاک ہے یہ شور مچاتے نظر آئے کہ اگر عیسائیوں کو کرسمَس ڈے کی مبارک باد دینا منع ہے تو ان کی ایجاد کردہ اشیاء کا استعمال بھی ناجائز ہونا چاہیے. ایک صاحبہ کا سارا زور اس بات پر تھا کہ فتویٰ باز لوگوں کی عادت ہے دوسروں کو کافر کہنے کی! ایسے فتووں کا کوئی اعتبار نہیں. میں نے پوچھا کہ اس مسئلے میں کفر کی بات کس عالم نے لکھی ہے؟ کس کتاب میں لکھی ہے؟ اور کس صورت میں لکھی ہے؟ تو سوائے خاص طرز کے نسوانی طعنے دینے کے وہ کچھ نہ کر سکیں!! یہ لوگ اپنی عادت سے مجبور ہیں.. ان میں ذرہ برابر علمی دیانت اور اخلاق ہوتا تو کچھ لکھنے بولنے سے پہلے مطالعہ کرتے، کسی سے مسئلہ سمجھنے کی کوشش کرتے... فقہاء نے قرآن و حدیث کی روشنی میں غیر مسلموں سے تعلقات پر ایک دو نہیں، سینکڑوں ہزاروں صفحات لکھے ہیں جن میں ہر زاویہ سے بحث کی گئی ہے. مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ان علماء کا علم کتنا گہرا اور نظر کس قدر وسیع تھی کہ کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا. محض افادہ کی غرض سے سوال جواب کی شکل میں آسان لفظوں میں اس مسئلے کی مختلف شکلوں کا حکم لکھ رہا ہوں تاکہ یہ بات بخوبی معلوم ہو کہ فقہاء کے یہاں تنگی نہیں، تہی دامنی اس گروہِ معترض کے یہاں ہے!


–کیا غیر مسلم (یہودی ،عیسائی، ہندو وغیرہ) کے ساتھ کاروبار کرنا حرام ہے؟

جی نہیں


–کیا غیر مسلم کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا میل جول رکھنا حرام ہے؟

جی نہیں


–کیا غیر مسلم کے ساتھ کھانا پینا حرام ہے؟

جی نہیں


–کیا غیر مسلم کی مدد کرنا، اس کے کام آنا حرام ہے؟

جی نہیں


–کیا غیر مسلم کے لیے دعائے صحت کرنا حرام ہے؟ 

جی نہیں


–کیا غیر مسلم کی عیادت کرنا، مزاج پرسی کرنا حرام ہے؟

جی نہیں


–کیا غیر مسلم کی تعزیت کرنا حرام ہے؟ 

جی نہیں 


–کیا ضرورت کے وقت کافر کو خون دینا حرام ہے؟ 

جی نہیں 


کیا غیر مسلم کے مذہبی تہوار کی مبارک باد دینا جائز ہے؟ 

–جی نہیں 


–کیا غیر مسلم کے مذہبی تہوار میں شریک ہونا جائز ہے؟ 

جی نہیں 


–کیا غیر مسلم کے مذہبی تہوار کے احترام و تعظیم کی غرض سے مبارک باد دینا جائز ہے؟ 

جی نہیں (موجبِ کفر ہے) 


–کیا غیر مسلموں کے مذہبی شعار کو اختیار کرنا جائز ہے؟ 

جی نہیں (موجبِ کفر ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے