65a854e0fbfe1600199c5c82

میں نے پُورا پاکستان تو نہیں دیکھا نہ میں پُورے پاکستان کو جانتا ہوں لیکن جب سے شعور نے آنکھ کھولی ہے یہ دیکھا ہے کہ برصغیر میں شادی کے لیے عمر کو حلال اور حرام کے درجے میں برتا جاتا ہے ۔

میں نے پوری زندگی میں صرف ایک شخص کو دیکھا ہے جس کے ولیمے میں بھی ، میں شریک ہوا کہ جس کی اپنی عمر اُس وقت شاید پچیس یا چھبیس سال رہی ہو گی ، کنوارہ تھا ۔ شخصیت ایسی وجیہہ و شکیل کہ بندہ دیکھتا ہی رہ جائے ، مالی اعتبار سے انتہائی مستحکم ، تعلیم شادی کے وقت ہی ایچ ڈی ساتھ قانون کی ڈگری ۔۔ ان کوائف کے ساتھ اُس نے ٹھیک سے یاد نہیں مطلقہ یا بیوہ ، غالب گمان ہے کہ بیوہ کے ساتھ اپنا پہلا نکاح کیا ۔ بیوہ کا پہلے شوہر سے ایک بارہ سالہ لڑکا بھی تھا ۔

اس کے علاؤہ ایسی کوئی مثال میرے علم میں نہیں ۔

""" عاشقان ِ مصطفیٰ "" کے اس دیس میں کوئی لڑکی نوجوانی میں ہی بیوہ یا کسی جائز ترین وجہ سے بھی مطلقہ ہو جائے تو وہ پُرانی ہندو روایت کے مطابق "" ستی "" کر دی جاتی ہے ( اگر کوئی رشتہ آئے بھی تو میرٹ پر نہیں آتا ، ثواب کے لیے آتا ہے ، احسان کیا جاتا ہے یا پھر ضعیف ترین حضرات اپنے بڑھاپے کے لیے نرس کی تلاش میں آ جاتے ہیں ) 

اس مکروہ معاشرے کے رویے کے مقابل ستی جیسی ہندو روایت مجھے بہت بہتر اور عورت دوست لگتی ہے ۔ ستی میں عورت چند لمحات کی تکلیف کے بعد اس دنیا کے ہر پل نازل  ہونے والے عذاب سے نجات پا لیتی ہے ۔

اصل مسئلہ ہماری بازاری دیسی سوچ میں ہے ۔

ایک طرف عشق اور محبت کے تڑکے ، جس میں محبوبہ کا ایسا حلیہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہودیوں والی گائے تو مل جائے لیکن ایسی محبوبہ کے چکر میں گھر گھر میں لڑکیوں کو "" ان ڈور کیٹ واک "" کروا کے ہر زاویے سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے ۔

ہم اصل میں عورت کو انسان نہیں برتن سمجھتے ہیں ۔

بیوہ / مطلقہ یعنی ایسا برتن جو جھوٹا ہو چکا ہے ۔

دوسری طرف لڑکا عادی زانی بھی ہو تو کنوارہ اور فرشتہ ہی تصور کیا جاتا ہے ۔

اب ذرا مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم معاشرے میں تشریف لے جائے ۔ پہلے تو سیرت ِ مصطفیٰ سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت برتن نہیں انسان ہوتی ہے اور بیوہ یا مطلقہ ہونے کے بعد بھی پاکیزہ ترین ہی رہتی ہے ۔

پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت مطہرہ کہ شہیدوں کی بیواؤں کے لیے عدت کے بعد اعلیٰ و ادنیٰ ہر طرح کے رشتوں کی لطیف بارش ہوا کرتی تھی ۔

اس کے بعد نمبر آتا ہے ایسی لڑکیوں کا جن کی عمر شادی کے بغیر پچیس سال سے اوپر ہو جاتی ہے ( اس میں اکثر وہ لڑکیاں خود اور ان کے والدین بھی ذمہ دار ہوتے ہیں ) ایسی لڑکیوں کے لیے دو چار سال کم عمر والا لڑکا یا خاندان بھی ہاں نہیں بولتا ۔

خوبصورتی ، قبول صورتی کو تو خیر چھوڑیے کہ خالق کی اس شعبے میں جو تضحیک کی جاتی ہے وہ بیان ہی نہیں کی جا سکتی ۔

اپنی کوشش سے نہ کسی کا رنگ گورا ہوتا ہے نہ قد دراز اور زلفیں بادلوں جیسی ۔۔۔ یہ سب تو خالق کی تخلیق ہے ۔

الغرض ۔۔۔ عاشقان ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم پر جان دینے والے یہ کروڑوں نوجوان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے فلسفہ نکاح کو ہی آج تک نہیں سمجھ پائے ۔۔۔

یہ کلاسیک عشق و محبت نکاح کے چند دن بعد ہی گھاس چرنے نکل جاتا ہے ۔

میاں اور بیوی اگر ایک دوسرے کے لیے راحت کا سبب بنیں تو محبت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ۔

خوبصورت ترین جوڑا بھی ایک دوسرے کی زندگی عذاب کرنے لگے تو گھر گھر نہیں جہنم بن جاتا ہے ۔

بات زیادہ طویل ہو جائے گی ۔

ایسے لاکھوں جہنم نما گھر اس وقت بھی دنیا کو آباد نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ معاشرے کے رد عمل سے بچنے کے لیے زندگی کا چرخہ کسی نہ کسی طور کاتے جا رہے ہوتے ہیں ۔

سوشیالوجی کا طالب علم ہوں ۔ گورے نے ایسے گھروں کو مکمل تحقیق کے بعد "" ایمپٹی شیل میریجز "" قرار دیا ہے یعنی بظاہر صحت مند نظر آنے والے بادام جن میں سیاہ ، کڑوی اور بے کار چرمری سی کالی گِری ہوتی ہے ۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاں اگر ایسا کوئی جوڑا بن بھی جاتا تھا تو طلاق کی نعمت سے وہ اس عذاب سے نجات حاصل کر لیتے تھے اور دوسری یا تیسری کوشش میں وہ صحت مند خاندان ترتیب دینے میں کامیاب بھی ہو جاتے تھے ۔

مان لیجیے کہ "" برصغیر میں صرف اسلام کے تقدس اور احترام کے نعرے پہنچے ہیں ، اسلام شاید ابھی راستے میں ہے "" 

۔۔۔۔۔۔

عابی مکھنوی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے