65a854e0fbfe1600199c5c82

آن لائن بد نگاہی

 آن لائن بد نگاہی

محمد فہیم الدین بجنوری 

19 فروری 2023ء 


ہمارے "قلندر" نے پچیس سال قبل فرمادیا تھا کہ ٹی وی اسکرین پر وہی نظارے ممنوع ہیں، جن سے خارج میں حظ اٹھانا حلال نہیں، کرکٹ میچ سے دل چسپی رکھنے والوں نے اس سند کو اسی وقت فریم کرا لیا تھا۔


یہ وہ وقت تھا جب میں تبلیغی جماعت سے عملی وابستگی کی بدولت تقوی اور پارسائی کی خاص کیفیت سے گذر رہا تھا، اسی جماعت کے نور سے سرشار میں نے دارالعلوم کا ٹکٹ طعام واپس کیا تھا اور ماہانہ اخراجات کو مار کر قیمتا طعام جاری کرایا تھا، اس دور کی روحانی حلاوت اور ایمانی بالیدگی خوب یاد ہے، اس پس منظر میں اپنے شیخ اور استاذ کا یہ حوالہ کافی توحش انگیز اور گراں گذرا تھا۔


ان دنوں سعودی ٹیلی ویژن کی دینی نشریات ایک سیلاب کی مانند نمودار ہوئیں اور بر صغیر کے مذہبی طبقے کو تاویل وتوجیہ یا رد و مزاحمت کے نئے میدان سے نبرد آزما کر گئیں، وقت کے ساتھ حرمین شریفین کی اسکرین تجلیات بڑھتی رہیں؛ تا آں کہ روایتی حلقوں نے بھی اسے خاموش منظوری سے نواز دیا۔


سوئی نے مزید پیش رفت کی اور آخری فتنے یعنی موبائل کی تولید عمل میں آئی، ابتدا میں اسے گفتگو کے گشتی آلے کے طورپر پر لیا گیا تھا؛ لیکن بانی ایپل موبائل مسٹر اسٹیو جاب کا یہ تخیل انسانی تاریخ کا سنگ میل ثابت ہوا کہ اس گشتی دستی سے گفتگو کے علاوہ دیگر خدمات بھی ممکن ہیں اور جب اس نے پیش گوئی کی کہ اس کے آئندہ نسخے میں موسیقی ہوگی تو دنیا دم بہ خود رہ گئی تھی، دو دہائی بعد بھی اخباروں کی وہ سرخیاں ذہن میں تازہ ہیں، جن میں ایپل فون اجرا کی صبح، امریکی رئیسوں کو خریداری لائن میں صف بستہ دکھایا گیا تھا، عین اسی طرح جیسے ہندوستان میں ہم ریل کے تتکال ٹکٹ کے لیے رات ہی سے قطار میں کھڑے ہو جاتے تھے۔


آج ان سطور کی ترقیم کے وقت یہ موبائل ایسا آفاق گیر قتنہ ہے، جو جوان بھی اور جواں بخت بھی، اس کا عہد شباب متواتر روبہ ترقی ہے، فتنے کا دیسی ترجمہ گلے کی ہڈی ہے، اگر درپیش گرداب میں جائے رفتن اور پائے ماندن؛ دونوں اختیارات بہ یک وقت مفقود ہوں، تو آپ فتنے کا شکار ہیں اور یہ وہ ساعت ہے جہاں علم و دین، فہم وتدبر اور دانش وبینش سمیت، آپ کی جملہ لیاقتوں کو متعلقہ جوہر وکمال بہ روئے کار لانے ہیں۔


انسانی زندگی موبائل کی تسخیر کے سامنے سپر ڈال چکی ہے، نسل نو کو نئی ٹیکنالوجی سے دور رکھنا عقل وخرد کی تلقین نہیں ہو سکتی؛ کیوں کہ معاش ومعاشرے کے بعد علم و تحقیق کے رشتے بھی یہ نئی وابستگی اختیار کرچکے ہیں، دین کا خیمہ ہر روز اپنی رسیاں نئی دریافتوں کے سینے پر ہی تان رہا ہے۔


 ایک خاتون مسئلہ دریافت کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع ہوئیں، فضل بن عباس کی نظر اٹھی تو وہیں رہ گئی، آپ نے دست أقدس سے ان کا رخ دوسری جانب موڑ دیا، جب گناہ اس درجہ نزدیک آجائے تو سرپرستوں کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے، ایسی صورت میں ہاتھوں کی حرکت مسنون بھی ہے اور ناگزیر بھی۔


قافلہء حیات جس تازہ پڑاؤ پر ہے وہاں مقابلہ ویڈیو سازی یا اجتناب کے مابین نہیں ہے، اسی طرح آپشن ویڈیو دیکھنے اور پرہیز کرنے کے بیچ نہیں ہے، اس مرحلے کی بحثیں پیچھے رہ گئی ہیں، اب انتخاب یہ ہے کہ کیا دیکھنا مشروع ہے؟ اور کس مواد میں دینی حدود سے تجاوز ہے؟


میرے استاذ وشیخ کا قلندرانہ مذکورہ بالا جواب لمحہء فکریہ ہے کہ موبائل میں آپ کی نگاہیں اتنی ہی آزاد ہیں، جتنی موبائل کی ولادت سے قبل تھیں، حدود الہیہ محکم ہیں وہ مابعد موبائل بھی بدستور قائم ودائم ہیں، اس رائے کے لطف کو یہ جان کاری دوبالا کرے گی کہ غض بصر کا وصف ہمارے شیخ پر ختم ہے، یہ رائے اس ہستی سے منسوب ہے، جس کی دو صفات یعنی تواضع اور غض بصر کو یہ خاک سار، رشکِ ابدالِ شام سمجھتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. ماشاءاللہ! دورحاضر میں اس طرح کے مضامین کی اشد ضرورت ہے اللہ مضمون نگار کی عمر میں برکت عطا فرمائے ۔

    جواب دیںحذف کریں