65a854e0fbfe1600199c5c82

ماہِ شعبان کی فضیلت اور اعمال



 ✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨


*سلسلہ نمبر 192:*

🌻 *ماہِ شعبان کی فضیلت اور اعمال*

(تصحیح ونظر ثانی شدہ)


📿 *ماہِ شعبان کی فضیلت:*

شعبان قمری یعنی اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کو بڑی ہی فضیلت عطا فرمائی ہے، اس میں شبِ برأت جیسی عظیم رات بھی ہے۔ ماہِ شعبان کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور اقدس ﷺ یہ دُعا مانگتے:

*اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْ رَجَبٍ وَّشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ.*

▪ *ترجمہ:* اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا۔

☀ کتاب الدعاء للطبرانی:

911- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَّشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ». (باب القول عند دخول رجب)

اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! ماہِ رجب اور ماہِ شعبان میں اپنی عبادات اور اِطاعت کی توفیق عطا کرکےان میں برکت عطا فرمائیے اور ہمیں ماہِ رمضان تک پہنچا دیجیے تاکہ ہم اس مبارک مہینے کے اعمال، فضائل وبرکات اور انوارات سے مستفید ہوسکیں۔ اس لیے ماہِ شعبان کے آغاز میں بھی یہ دعا مانگ لینی چاہیے۔

☀ مرقاۃ المفاتیح شرح المشکاۃ میں ہے:

(وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ) مُنَوَّنٌ وَقِيلَ: غَيْرُ مُنْصَرِفٍ (قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا) أَيْ: فِي طَاعَتِنَا وَعِبَادَتِنَا (فِي رَجَبٍ وَّشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ) أَيْ: إِدْرَاكَهُ بِتَمَامِهِ، وَالتَّوْفِيقَ لِصِيَامِهِ وَقِيَامِهِ.


⭕ *تنبیہ:*

اس دعا کی اسنادی حیثیت سے متعلق بندہ نے اپنے رسالے ’’ماہِ رجب: فضائل، اعمال، بدعات اور غلط فہمیاں‘‘ میں تفصیل ذکر کی ہے، وہیں ملاحظہ فرمائیں۔


📿 *ماہِ شعبان ماہِ رمضان کی تمہید ہے!*

ماہِ شعبان کی فضیلت واہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس کے متصل بعد ہی رمضان کا نہایت ہی مبارک مہینہ ہے، جس کے لیے ماہِ شعبان میں تیاری کرنے کا بہترین موقع میسر آجاتا ہے اور رمضان میں خوب سے خوب تر عبادات ادا کرنے کی پہلے ہی سے عادت ہوجاتی ہے، گویا کہ یہ مہینہ ماہِ رمضان کی تمہید ہے۔ اس لیے ماہِ شعبان میں عبادات کا اس لیے بھی اہتمام ہونا چاہیے تاکہ ماہِ رمضان میں عبادات کرنے میں سہولت رہے اور ماہِ رمضان کے فضائل وبرکات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔


📿 *ماہِ شعبان کے اعمال:*

شعبان کے مہینہ کی فضیلت اور اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں عبادات کا خوب اہتمام کیا جائے۔ یہ عبادات دن میں بھی ادا کی جاسکتی ہیں اور رات میں بھی، اس کے لیے کوئی وقت یا تاریخ خاص نہیں اور نہ ہی اس کے لیے کوئی خاص عبادت مقرر ہے، بلکہ ہر شخص اپنی وسعت کے مطابق پورے مہینے کے شب وروز میں موقع ومحل کے اعتبار سے جس قدر نوافل، ذکر وتلاوت، دعاؤں اور روزوں وغیرہ کا اہتمام کرسکتا ہے تویہ بڑی ہی فضیلت کی بات ہے۔  


📿 *ماہِ شعبان کے روزے:*

ماہِ شعبان میں دیگر عبادات کی طرح روزے رکھنے کی بھی بڑی فضیلت ہے کیوں کہ اس مہینے میں حضور اقدس ﷺ سے کثرت سے روزے رکھنا ثابت ہے، احادیث ملاحظہ فرمائیں:

1⃣ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نےحضور اقدس ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو ماہِ شعبان میں جس قدر کثرت سے روزے رکھتے ہوئے دیکھا اتنا کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، تو حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’یہ مہینہ جو کہ رجب اور رمضان کے درمیان ہے اس سے لوگ غافل ہوتے ہیں، یہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعمال پیش 

کیے جاتے ہیں تو میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حالت میں پیش کیے جائیں کہ میرا روزہ ہو۔‘‘

☀ سنن النسائی میں ہے:

2356- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَبُو الْغُصْنِ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ، قَالَ: «ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ».

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ ماہِ شعبان میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعمال پیش کیے جاتے ہیں، اس لیے اس سے روزوں سمیت دیگر اعمال وعبادات کے اہتمام کی فضیلت واہمیت بھی معلوم ہوجاتی ہے۔ 

2️⃣حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺ ماہِ شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔

☀ صحیح البخاری میں ہے:

1969- عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: لَا يَصُومُ، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ. (بَابُ صَوْمِ شَعْبَانَ)

مذکورہ دو احادیث سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ حضور اقدس ﷺ ماہِ شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے، جس سے ماہِ شعبان کے روزوں کی فضیلت ثابت ہوجاتی ہے، اس لیے شعبان کا پورا مہینہ روزوں کے لیے بہت ہی موزون اور فضیلت والا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اس مہینے میں کسی بھی دن روزہ رکھا جاسکتا ہے، ہر دن کا نفلی روزہ اپنی ذات میں اہمیت وفضیلت رکھتا ہے، چنانچہ ہر شخص اپنی وسعت وطاقت کے مطابق پورے مہینے میں جتنے بھی روزے رکھنا چاہے تو یہ سعادت کی بات ہے۔ ساتھ میں یہ بات بھی یاد رہے کہ ماہِ شعبان میں روزے رکھنا زیادہ سے زیادہ مستحب عمل ہے جس کی بڑی فضیلت ہے لیکن اس کو ضروری سمجھنا اور اس معاملے میں حدود سے تجاوز کرنا ناجائز ہے۔


📿 *ماہِ شعبان کے آخری ایام میں روزے رکھنے کا حکم:*

یہاں یہ مسئلہ بھی واضح رہے کہ ماہِ شعبان کے آخری دو تین دنوں میں روزے نہیں رکھنے چاہییں کیوں کہ احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، اس ممانعت کی متعدد وجوہات ہیں:

▪ایک تو اس لیے کہ ماہِ رمضان اور ماہِ شعبان کے ایام خلط ملط نہ ہوں۔

▪دوسرا اس لیے کہ ماہِ رمضان پر کسی دن کے اضافے کا شبہ پیدا نہ ہو ۔

▪تیسرا اس لیے کہ ماہِ رمضان سے پہلے دو تین دن وقفہ کرکے رمضان کے روزوں اور عبادات کے لیے تازہ دم ہوا جائے۔

البتہ اگر کسی شخص کا پیر یا جمعرات یا کسی اور دن روزہ رکھنے کا معمول ہو اور یہ دن ماہِ شعبان کی آخری تاریخوں میں آجائیں تو ایسی صورت میں معمول کے مطابق شعبان کے آخری دو تین دنوں میں بھی یہ روزے رکھنا جائز ہے۔

(صحیح البخاری حدیث: 1969 ،1914، سنن الترمذی حدیث: 737 ،684، ہندیہ، رد المحتار، مرقاۃ، اصلاحی خطبات)


☀ صحیح البخاری میں ہے:

1914- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ». (بَاب: لَا يَتَقَدَّمَنَّ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ)

☀ سنن الترمذی میں ہے:

684- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «لَا تَقَدَّمُوا الشَّهْرَ بِيَوْمٍ وَلَا بِيَوْمَيْنِ، إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ ثُمَّ أَفْطِرُوا». وَفِي البَابِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. رَوَاهُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بِنَحْوِ هَذَا. حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ: كَرِهُوا أَنْ يَتَعَجَّلَ الرَّجُلُ بِصِيَامٍ قَبْلَ دُخُولِ شَهْرِ رَمَضَانَ لِمَعْنَى رَمَضَانَ، وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يَصُومُ صَوْمًا فَوَافَقَ صِيَامُهُ ذَلِكَ فَلَا بَأْسَ بِهِ عِنْدَهُمْ.


🌺 *دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن:*

’’احادیثِ مبارکہ میں رمضان المبارک سے ایک یا دو دن پہلے روزے رکھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، لہٰذا تیس شعبان کا روزہ نہ رکھنا چاہیے، ہاں! اگر کوئی شخص ایسا ہے جو ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتا ہو اور تیس شعبان پیر یا جمعرات میں سے کسی ایک دن آ گئی تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص پورے شعبان روزے رکھتا ہو تو وہ بھی تیس شعبان کا روزہ رکھ سکتا ہے۔

☀ الدر المختار وحاشيۃ ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 381):

(قوله: ولايصام يوم الشك) هو استواء طرفي الإدراك من النفي والإثبات، بحر (قوله: هو يوم الثلاثين من شعبان) الأولى قول نور الإيضاح: هو ما يلي التاسع والعشرين من شعبان أي؛ لأنه لايعلم كونه يوم الثلاثين؛ لاحتمال كونه أول شهر رمضان، ويمكن أن يكون المراد أنه يوم الثلاثين من ابتداء شعبان فمن ابتدائية لا تبعيضية، تأمل. فقط واللہ اعلم‘‘

(فتویٰ نمبر: 144008200757، تاریخِ اجرا: 06-05-2019)


🌹 *فائدہ:* پندرہ شعبان کے فضائل واحکام سے متعلق تفصیل آئندہ کی کسی قسط میں ذکر کی جائے گی ان شاء اللہ۔


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

یکم شعبان المعظم1441ھ/ 26 مارچ 2020


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے