65a854e0fbfe1600199c5c82

تبلیغی احباب کو دین کی نہیں جماعت کی فکر ہے



تبلیغی احباب کو دین کی نہیں جماعت کی فکر ہے

(یہ مضمون لکھنے کا مقصد تبلیغی جماعت اور تبلیغی احباب کی مخالفت کرنا نہیں بلکہ تبلیغی جماعت کے کچھ احباب جو اکابرین کے مرتب کردہ اصولوں سے ہٹ کر تبلیغ کے کام کی شبیہ بگاڑ رہے ہیں انہیں آگاہ کرنا ہے الحمدللہ میں نے خود ایک سال جماعت میں لگایا ہے اور ہر سال وقت لگاتا ہوں اور اب تک اللہ کی رضا کے لئے تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوں عبدالقدیر قاسمی)

ہمارے اسلاف نے مسلمانوں میں دین ایمان اور ان کے اسلامی تشخص کو بچانے کے لئے لئے بہت سے انتظامات کئے ان میں سے ایک تبلیغی جماعت بھی ہے جس نے گھر گھر دین کی دعوت پہنچائی اور ویران مسجدوں کو آباد کیا بظاہر یہ ایک سیدھا سادہ کام ہے مگر یہ اس کام کے اخلاص کی برکت تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کام ایک سینے سے دوسرے سینے  ایک زبان سے دوسری زبان  ایک مسجد سے دوسری مسجد تک پھیلتے پھیلتے پورے عالم میں پہنچ گیا اور تبلیغی جماعت کے مبارک اثرات وہاں تک پہنچے جہاں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچ سکی حقیقت میں تبلیغی جماعت کا کام مسلمانوں کے لیے ایک نعمت  اور دین کا درد رکھنے والوں کے لئے مرہم ہے اس لیے مسلمانوں کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ وہ بھی اس کام کو اپنا کام سمجھیں اور آگے بڑھ کر اس کام کو سنبھالیں خدا نخواستہ اگر یہ عظیم کام اہل علم کی قیادت سے محروم ہوگیا تو مسلمانوں کو فتنوں کی ایک اور سیاہ رات دیکھنا پڑ جائے گی اور یہ امت کے لیے لیے بہت ہی محرومی اور بد قسمتی کی بات ہوگی کیونکہ بعض چیزیں تبلیغی جماعت میں ایسی شامل ہو گئیں ہیں جن پر اگر قابو نہ پایا گیا تو اس کام کی افادیت شدید متاثر ہوگی اور یہ کام داخلی اختلافات اور بے اصولی کا شکار ہو جائے گا  
*مثال کے طور پر* تبلیغی جماعت کے اصول میں سے ہے کہ  کسی کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ اگر کوئی مخالفت کرے تو اسے بھی جواب نہ دیا جائے چنانچے تبلیغی جماعت نے اس زریں اصول کو مضبوطی سے تھامے رکھا لوگوں نے انہیں گالیاں دیں ان کے بستر مسجدوں سے باہر نکال کر پھینک دئے بعض جگہوں پر انہیں مارا پیٹا تک گیا ان کے خلاف سخت  کتابیں لکھی گئیں مگر جماعت کے احباب ہر ستم کو مسکرا کر سہتے رہے بالآخر تبلیغی جماعت کا یہ صبر کام آیا اور مخالفین یا تو معدوم  ہو گئے یا نہیں ذلیل ہونا پڑا جب کہ تبلیغی احباب اپنا وقت ضائع کئے بغیر آگے بڑھتے چلے گئے مگر اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ تبلیغی جماعت کے افراد اپنی بڑھتی ہوئی قوت اور پھیلتے ہوئے کام سے متاثر ہو کر اس اصول کو چھوڑتے جا رہے ہیں بیانات میں عاجزی کے بجائے جارحانہ انداز آتا جا رہا ہے جہاد مدارس اور اہل علم کی کھل کر مخالفت کی جارہی ہے جن مساجد میں جماعت والوں  کو قوت حاصل ہے وہاں علماء کرام کے درس بند کرا دئے جاتے ہیں یقینا یہ ایک بڑی غلطی ہے اور جماعت کی خود کشی کی طرف پہلا قدم ہے 
*دوسری مثال* تبلیغ والے پہلے فضائل بیان کیا کرتے تھے دلائل میں الجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے لیکن آج کل دیکھنے میں آرہا ہے کہ ڈاکٹر ماسٹر اور ایک عام سا آدمی بھی کھڑے ہو کر مکی اور مدنی زندگی  حسن لعینہ حسن لغیرہٖ کی فقہی اصطلاحات ناسخ و منسوخ  جہاد اکبر اور جہاد اصغر اقدامی اور دفاعی جہاد کے فرق پر بے لاگ اور فضول تبصرے کر رہے ہیں ایک زمانہ تھا جب تبلیغی احباب کا بیان ہوتا تھا تو باتیں کم اور آنسو زیادہ دیکھنے کو ملتے تھے ایک عام سا آدمی بھی کھڑا ہو کر صرف اتنا کہتا تھا بھائیو اللہ سے ہونے کا یقین اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہم سب میں پیدا ہو جائے اسے سیکھنے کے لیے ہم  نکلے ہیں بس اتنی سی بات پر لوگ اپنی زندگیاں لکھوا دیتے تھے لیکن اب شاید تبلیغی جماعت والے عام خطیبوں سے متاثر ہو کر نئی تقریریں کرنے کے شوق میں اپنا سوز اور درد کھوتے جا رہے ہیں اور ان سے اپنے بڑے مجمعے دیکھے نہیں جا رہے  بلکہ انہیں اپنی قوت اور کثرت پر ناز ہونے لگا ہے اسی لئے کل تک انہیں مسجدوں سے نکالا جاتا تھا اب وہ دوسروں کو مسجد سے نکال رہے ہیں بہرحال  تبلیغی جماعت کا یہ فعل دین کے حق میں بہتر نہیں ہے 
*اور پہلے  لوگوں میں تبلیغی جماعت* کی پہچان یہ تھی کہ یہ اللہ والے ہیں یہ دین کے خاطر مرتے اور جیتے ہیں یہ کسی کی مخالفت نہیں کرتے یہ اپنی مشغولی کا قیمتی وقت نکال کر اللہ کے بندوں کو اللہ کا تعارف کرواتے ہیں جو اپنی نہیں دین کی زیادہ فکر کرتے ہیں مگر اب بہت افراد ایسے ہیں جنہیں دین سے زیادہ تبلیغی جماعت کی فکر ہے جو دین میں تعاون کے بجائے تقابل پر آگئے ہیں اس لئے اگر وہ کسی اور طریقے سے دین کا کام  ہوتا دیکھتے ہیں تو خوش ہونے کے بجائے دل تھام کر رہ جاتے ہیں اور حسب استطاعت مخالفت بھی کرتے ہیں اور اگر کوئی عالم دین مسجد میں درس قرآن و حدیث مسائل کا حلقہ یا دین کا کوئی اور کام اپنے طور پر کرنا چاہے تو اس پر طرح طرح کے الزامات لگا کر بد نام کیا جاتا ہے کیا مولانا الیاس صاحبؒ کی تبلیغی جماعت یہ سب کچھ کر سکتی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں یا اللہ اہل حق کی تمام دینی تنظیموں کی حفاظت فرما آمین ۔ عبدالقدیر قاسمی قنوجی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے