65a854e0fbfe1600199c5c82

ستائیس رجب اور شبِ معراج سے متعلق غلط فہمیاں



 ✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨


*سلسلہ نمبر 167:*


📿 *ستائیس رجب اور شبِ معراج سے متعلق غلط فہمیاں:*

ستائیس رجب سے متعلق متعدد غلطیاں اور غلط فہمیاں عوام میں رائج ہیں، جیسے:

▪ستائیس رجب کو یقینی طور پر شبِ معراج سمجھا جاتا ہے۔

▪شبِ معراج کو فضیلت اور عبادت والی رات سمجھا جاتا ہے اور اس کے خود ساختہ عبادات اور فضائل بیان کیے جاتے ہیں۔

▪ستائیس رجب اور شبِ معراج میں مخصوص طریقے سے خاص نماز ادا کی جاتی ہے۔

▪ستائیس رجب کو شبِ معراج قرار دے کر اس میں اسی عنوان سے جلسے اور محفلیں منعقد کی جاتی ہیں، چراغاں کیا جاتا ہے، مساجد اور گھروں کو سجایا جاتا ہے اور ایک جشن کا سا سماں ہوتا ہے۔

▪ستائیس رجب کو حلوہ، چاول یا دیگر کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔

▪ستائیس رجب کے روزے کی خصوصی فضیلت بیان کی جاتی ہے اور اس کی ترغیب دی جاتی ہے۔

الغرض اس طرح کی متعدد باتیں عوام میں رائج ہیں جو کہ دینی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ ذیل میں اس کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے۔


📿 *کیا ستائیس رجب کی رات معراج کا واقعہ پیش آیا؟*

ماہِ رجب سے متعلق اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے کی ستائیس تاریخ کو معراج کا واقعہ پیش آیا۔ واضح رہے کہ معراج کا یہ واقعہ کس مہینے میں اور کس تاریخ کو پیش آیا، اس سے متعلق یقینی طور پر کچھ کہنا بہت ہی مشکل ہے، عام طور پر مشہور تو یہی ہے کہ 27 رجب کی رات کو یہ واقعہ پیش آیا لیکن واضح رہے کہ قرآن وسنت سے اس حوالے سے کوئی واضح اور معتبر بات ثابت نہیں حتی کہ اس رات کی تعیین میں حضرات صحابہ کرام، تابعین عظام اور اکابرِ امت کی بہت سی آرا ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس شدید اختلاف کے پیشِ نظر حضرات اکابر کے نزدیک رجب کی 27 تاریخ ہی کو یقینی طور پر شبِ معراج قرار دینا درست نہیں۔


📿 *واقعہ معراج کی تاریخ میں اختلاف کیوں؟؟*

یہاں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب معراج کا واقعہ اس قدر عظیم الشان واقعہ ہے حتی کہ یہ حضور اقدس ﷺ کے عظیم معجزات میں سے ہے، اور پھر حضرات صحابہ کرام دین کی ہر ایک بات محفوظ رکھنے اور اسے امت تک پہنچانے میں کافی حریص تھے تو پھر واقعہ معراج کی تاریخ کی درست تعیین کیوں نہ ہوسکی؟ تو اس شبہ کے متعدد جوابات دیے گئے ہیں جن میں سےایک درست جواب یہ بھی ہےکہ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ شبِ معراج کی تاریخ سےمتعلق امت کا کوئی شرعی حکم وابستہ نہیں تھا اس لیے مِنْ جانبِ اللہ اس کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا گیا، کیوں کہ سال بھر کی جن تاریخوں سے شریعت کے احکام وابستہ تھے تو ان سے متعلق حضور اقدس ﷺ کے ارشادات امت کے سامنے ہیں اور ان تاریخوں کو محفوظ رکھنے کا اہتمام امت نے بخوبی کیا، لیکن شبِ معراج سےمتعلق قرآن وسنت میں کوئی مخصوص حکم نہیں ملتا اس لیے اس کو محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی اِقدامات حضرات صحابہ کرام کی جانب سے اجتماعی طور پر سامنے نہیں آئے اور نہ ہی حضور اقدس ﷺ کی جانب سے ایسا کوئی حکم دیا گیا۔


📿 *واقعہ معراج کی تاریخ میں اختلاف سے واضح ہونے والا ایک اہم نکتہ:*

ماقبل کی تفصیل سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ شبِ معراج کی تعیین میں بہت سے اقوال ہیں، یہ اختلاف خود اس طرف اشارہ کررہا ہے کہ شبِ معراج سے متعلق نہ تو حضور ﷺ نے کوئی حکم یا فضیلت بیان فرمائی، نہ ہی حضرات صحابہ کرام میں اس حوالے سے کسی خاص عمل یا جشن وغیرہ کا اہتمام تھا اور نہ ہی حضرات تابعین وتبع تابعین میں ،کیوں کہ اگر اس تاریخ سے متعلق حضور اقدس ﷺ، حضرات صحابہ وتابعین کرام کے دور میں کوئی مخصوص عمل یا اہتمام یا جشن وغیرہ رائج ہوتا تو امت میں شبِ معراج کی تاریخ سے متعلق اس قدر اختلاف نہ ہوتا۔ اس اہم نکتے میں ہر مسلمان کے لیے بہت بڑا سبق ہے!


📿 *کیا شبِ معراج کی کوئی فضیلت یا عبادت ثابت ہے؟*

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ رات بڑی ہی فضیلت اور سعادت والی تھی جس میں معراج کا عظیم الشان واقعہ پیش آیا، اور یہ ایسی فضیلت ہے جو کہ کسی اور شب اور تاریخ کو حاصل نہیں، لیکن اس کے علاوہ شبِ معراج کے بارے میں قرآن وحدیث سے کسی قسم کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں، اور نہ ہی حضور اقدس ﷺ اور ان کے صحابہ کرام نے شبِ معراج منانے یا جاگ کر گزارنے کا اہتمام کیا ہے، اسی طرح اس رات سے متعلق مخصوص عبادات یا اس طرح کا کوئی بھی عمل معتبر دلائل سے ثابت نہیں۔ آجکل بعض لوگوں نے ستائیس رجب کے حوالے سے اپنی طرف سے ایک نماز ایجاد کر رکھی ہے کہ دو یا چار رکعات اس طرح ادا کی جائیں کہ پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد فلاں سورت اتنی بار پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی بار پڑھی جائےتو واضح رہے کہ یہ بھی قرآن وسنت سے ثابت نہیں۔ اس لیے اپنی طرف سے کسی رات سےمتعلق فضائل بیان کرنا یا عبادات خاص کرنا شریعت کے خلاف اور بہت بڑا جرم ہے۔ اس لیے آجکل لوگوں نے شبِ معراج یا ستائیس رجب سے متعلق جس قدر بھی فضائل اور عبادات ایجاد کی ہیں وہ سب خود ساختہ ہیں، جن سے اجتناب ضروری ہے۔ امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’تبیین العجب بما ورد فی شھر رجب‘‘ کے نام سے ایک بہترین کتاب تحریر فرمائی ہے جس میں انھوں نے ماہِ رجب سے متعلق لوگوں میں رائج بے بنیاد اور غیر معتبر روایات اور فضائل کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، ان کی تحقیق کے مطابق لوگوں میں شبِ معراج یا ستائیس رجب سے متعلق جس قدر بھی فضائل اور عبادات رائج ہیں وہ سب غیر معتبر اور بے اصل ہیں۔

 ذیل میں ’’اصلاحی خطبات‘‘ سے طویل اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

*شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دام ظلہم فرماتے ہیں کہ:*

”۲۷/رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِ معراج ہے، اور اس شب کو بھی اسی طرح گزارنا چاہیے جس طرح شبِ قدر گزاری جاتی ہے اور جو فضیلت شبِ قدر کی ہے، کم وبیش شبِ معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے، بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ ”شبِ معراج کی فضیلت شبِ قدر سے بھی زیادہ ہے“، اور پھر اس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کر دیے کہ اس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں اور ہر رکعت میں فلاں فلاں سورتیں پڑھی جائیں، خدا جانے کیا کیا تفصیلات اس نماز کے بارے میں مشہور ہو گئیں، خوب سمجھ لیجیے: یہ سب بے اصل باتیں ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔


❄️ *شبِ معراج کی تعیین میں اختلاف:*

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ۲۷/ رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتاکہ یہ وہی رات ہے، جس میں نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے کیوں کہ اس باب میں مختلف روایتیں ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے، بعض روایتوں میں رجب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سی رات صحیح معنوں میں معراج کی رات تھی، جس میں آنحضرت ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔


❄️ *اگر یہ فضیلت والی رات ہوتی تو اس کی تاریخ محفوظ ہوتی:*

اس سے آپ خود اندازہ کر لیں کہ اگر شب معراج بھی شبِ قدر کی طرح کوئی مخصوص عبادت کی رات ہوتی، اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شبِ قدر کے بارے میں ہیں، تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، لیکن چوں کہ شبِ معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷/ رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں۔


❄️ *وہی ایک رات فضیلت والی تھی:*

اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ ﷺ ۲۷/ رجب کو ہی معراج کے لیے تشریف لے 

گئے تھے، جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ مقام ِ قرب عطا فرمایا اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا، اور امت کے لیے نمازوں کا تحفہ بھیجا، تو بے شک وہی ایک رات بڑی فضیلت والی تھی، کسی مسلمان کو اس کی فضیلت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے؟ لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ۲۷/ رجب کی شب کو حاصل نہیں۔


❄️ *آپ کی زندگی میں ۱۸/ مرتبہ شبِ معراج کی تاریخ آئی لیکن:*

پھر دوسری بات یہ ہے کہ یہ واقعہ معراج سن ۵/ نبوی میں پیش آیا، یعنی حضور ﷺ کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شبِ معراج پیش آئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد ۱۸/ سال تک آپ ﷺ نے شبِ معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو، یا اس کو منانے کا حکم دیا ہو، یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شبِ قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے، نہ تو آپ کا ایسا کوئی ارشاد ثابت ہے، اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے، نہ خود آپ ﷺ جاگے اور نہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔


❄️ *اس کے برابر کوئی احمق نہیں:*

پھر سرکارِ دو عالم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریبًا سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں موجود رہے، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت نہیں ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ۲۷/ رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو، لہٰذا جو چیز حضور اقدس ﷺ نے نہیں کی اور جو چیز آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کی، اس کودین کا حصہ قرار دینا، یا اس کو سنت قرار دینا، یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (معاذ اللہ) حضور ﷺ سے زیادہ جانتا ہوں کہ کونسی رات زیادہ فضیلت والی ہے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق 

ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عمل کیا تو میں اس کو کروں گا تو اس کے برابر کوئی احمق نہیں۔


❄️ *صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے زیادہ دین کو جاننے والا کون؟*

لیکن جہاں تک دین کا تعلق ہے حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین رحمہم اللہ تعالیٰ اور تبع تابعین رحمہم اللہ تعالیٰ دین کو سب سے زیادہ جاننے والے، دین کو خوب سمجھنے والے، اور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والے تھے، اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان سے زیادہ دین کو جانتا ہوں، یا ان سے زیادہ دین کا ذوق رکھنے والا ہوں، یا ان سے زیادہ عبادت گذار ہوں تو حقیقت میں وہ شخص پاگل ہے، وہ دین کی فہم نہیں رکھتا۔


❄️ *اس رات میں عبادت کا اہتمام بدعت ہے:*

لہٰذا اس رات میں عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے، یوں تو ہر رات میں اللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی بہتر ہے، لہٰذا آج کی رات بھی جاگ لیں، کل کی رات بھی جاگ لیں، اسی طرح پھر ستائیسویں رات کو بھی جاگ لیں، لیکن اس رات میں اور دوسری راتوں میں کوئی فرق اور نمایاں امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔“ (اصلاحی خطبات:1/ 48 تا 51)


📿 *27 رجب کی رات کو معراج سے متعلق جلسہ کرنے کا حکم:*

ماقبل کی تفصیل سے جب یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرات اکابر کے نزدیک رجب کی 27 تاریخ ہی کو یقینی طور پر شبِ معراج قرار دینا درست نہیں تو اس سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس رات کو شبِ معراج قرار دے کر معراج سے متعلق جلسہ اور محفلیں منعقد کرنا بھی درست نہیں بلکہ دورِ حاضر میں یہ متعدد مفاسد کا سبب ہے۔ بہت سی مساجد اور مقامات میں اس رات خصوصیت کے ساتھ جلسہ منعقد کیا جاتا ہے، مساجد اور گلیوں کو سجایا جاتا ہے، رات بھر عمومی اسپیکر کے ذریعے بیان اور نعت خوانی کرکے محلے والوں کی آرام وراحت میں خلل ڈالا جاتا ہے، ماہِ رجب، واقعہ معراج اور شبِ معراج سے متعلق بے بنیاد عبادات اور فضائل بیان کیے جاتے ہیں اور اسی طرح دیگر غیر شرعی امور کا بھی ارتکاب کیا جاتا ہے، تو یاد رہے کہ یہ بھی غیر شرعی کام ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ (تفصیل دیکھیے: امداد الفتاویٰ، فتاویٰ محمودیہ)


📿 *واقعہ معراج کا حقیقی درس:*

واقعۂ معراج کی رات کوئی ایسی رات نہیں کہ جس کو ایک تہوار کی صورت دے کر منانے کا اہتمام کیا جائے، بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ اس واقعۂ معراج میں پیش آنے والےواقعات اور مشاہدات سے ہم سبق لیں، اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس پورے واقعہ سے جن اعمال کو کرنے کی اہمیت معلوم ہورہی ہے ان کو سرانجام دینے کی کوشش کی جائے اور جن کاموں سے بچنے کی دعوت دی گئی ہے ان سے بچنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ 


📿 *ستائیس رجب کے روزے کی حقیقت:*

 ماہِ رجب میں بہت سے لوگ ستائیس رجب کے روزے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں، اس کو ہزاری کا روزہ کہتے ہیں اور اس کے منگھڑت فضائل بھی بیان کرتے ہیں، واضح رہے کہ ماہِ رجب کی 27 تاریخ کو روزہ رکھنے کی خاص فضیلت معتبر احادیث سے ثابت نہیں، اس لیے ان غیر معتبر فضائل کی بنیاد پر اس دن روزہ رکھنا درست نہیں، البتہ چوں کہ یہ 27 تاریخ ماہِ رجب کے عام دنوں کی طرح ایک دن ہےاس لیے ان بے بنیاد اور منگھڑت باتوں سے بچتے ہوئے اگر کوئی شخص اس کو رجب کی عام تاریخ سمجھتے ہوئے اس دن نفلی روزہ رکھ لیتا ہے تو یہ جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔اس کی مزید تفصیل اس سلسلہ اصلاحِ اَغلاط کے سلسلہ نمبر 164 میں ملاحظہ فرمائیں۔


📚 *تفصیلی عبارات*

☀ شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية:

وقت الإسراء:

«ولما كان في شهر ربيع الأول» أو الآخر أو رجب أو رمضان أو شوال، أقوال خمسة «أسرى بروحه وجسده يقظة» لا مناما مرة واحدة في ليلة واحدة عند جمهور المحدثين والفقهاء والمتكلمين وتواردت عليه ظواهر الأخبار الصحيحة، ولا ينبغي العدول عنه.

☀ شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية:

«فإن قلت: إيما أفضل ليلة الإسراء أم ليلة القدر» التي هي خير من ألف شهر؟ «فالجواب كما قاله الشيخ أبو أمامة بن النقاش: أن ليلة الإسراء أفضل في حق النبي ﷺ من ليلة القدر»؛ لما أكرم به فيها من خوارق العادات التي أجلها رؤيته لله تعالى على الصحيح. «وليلة القدر أفضل في حق الأمة؛ لأنها» أي: العمل فيها «خير لهم من عمل في ثمانين سنة لمن قبلهم» بإلغاء الكسر، وهو ثلاث سنين وثلث سنة، بناء على أن المراد حقيقة العدد وهو ألف شهر، وصدر البيضاوي بأن المراد التكثير. «وأما ليلة الإسراء فلم يأت في أرجحية العمل فيها حديث صحيح»، أراد به ما يشمل الحسن بدليل قوله: «ولا ضعيف، ولذلك لم يعينها النبي ﷺ لأصحابه، ولا عينها أحد من الصحابة بإسناد صحيح، ولا صح إلى الآن، ولا» يصح «إلى أن تقوم الساعة فيها شيء»؛ لأنه إذا لم يصح من أول الزمان لزم أن لا يصح في بقيته؛ لعدم إمكان تجدد واحد عادة يطلع على ذلك بعد الزمن الطويل، وهذا لا يشكل عليه ما قيل: إنه كان ليلة سبع عشرة، أو سبع وعشرين خلت من شهر ربيع الأول، أو سبع وعشرين من رمضان، أو من ربيع الآخر، أو من رجب، واختير وعليه العمل؛ لأن ابن النقاش لم ينف الخلاف فيها من أصله، وإنما نفى تعيين ليلة بخصوصها للإسراء وأنها أصح. «ومن قال فيها شيئًا فإنما قال من كيسه» أي: من عند نفسه دون استناد لنص يعتمد عليه «لمرجع ظهر له، استأنس به» لما جزم به، «ولهذا» أي: عدم إتيان شيء فيها «تصادمت الأقوال فيها وتباينت، ولم يثبت الأمر فيها على شيء، ولو تعلق بها نفع للأمة ولو بذرة» أي: شيئًا قليلًا جدًّا «لبينه لهم نبيهم ﷺ»؛ لأنه حريص على نفعهم. «انتهى» كلام أبي أمامة. (المقصد الخامس: في تخصيصه عليه الصلاة والسلام بخصائص المعراج والإسراء)

☀ البداية والنهاية:

فَصْلٌ: الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ ﷺ مِنَ مَكَّةَ إلى بيت المقدس:

ذَكَرَ ابْنُ عَسَاكِرَ أَحَادِيثَ الْإِسْرَاءِ فِي أَوَائِلِ الْبَعْثَةِ، وَأَمَّا ابْنُ إِسْحَاقَ فَذَكَرَهَا فِي هَذَا الْمَوْطِنِ بَعْدَ الْبِعْثَةِ بِنَحْوٍ مِنْ عَشْرِ سِنِينَ، وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ مِنْ طَرِيقِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنِ الزُّهري أَنَّهُ قَالَ: أُسَرِي بِرَسُولِ اللهِ ﷺ قَبْلَ خُرُوجِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ بِسَنَةٍ. قَالَ: وَكَذَلِكَ ذَكَرَهُ ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَةَ. ثُمَّ رَوَى الْحَاكِمِ عَنِ الْأَصَمِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ عَنْ يُونُسَ بْنِ بُكَيْرٍ عَنْ أَسْبَاطِ بْنِ نَصْرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ السُّدِّيِّ أَنَّهُ قَالَ: فُرِضَ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ الْخَمْسُ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ لَيْلَةَ أُسري بِهِ قَبْلَ مُهَاجَرِهِ بِسِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَعَلَى قَوْلِ السُّدِّيِّ يَكُونُ الْإِسْرَاءُ فِي شَهْرِ ذِي الْقِعْدَةِ، وَعَلَى قَوْلِ الزُّهْرِيِّ وَعُرْوَةَ يَكُونُ فِي رَبِيعٍ الْأَوَّلِ. وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مِينَا عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَا: وُلِدَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَامَ الْفِيلِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ الثَّانِيَ عَشَرَ مِنْ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، وَفِيهِ بعث، وفيه عرج به إلى السماء، وفيه هَاجَرَ، وَفِيهِ مَاتَ. فِيهِ انْقِطَاعٌ. وَقَدِ اخْتَارَهُ الْحَافِظُ عَبْدُ الْغَنِيِّ بْنُ سُرُورٍ الْمَقْدِسِيُّ فِي «سِيرَتِهِ»، وَقَدْ أَوْرَدَ حَدِيثًا لَا يَصِحُّ سَنَدُهُ ذَكَرْنَاهُ فِي فَضَائِلِ شَهْرِ رَجَبٍ أَنَّ الْإِسْرَاءَ كَانَ لَيْلَةَ السَّابِعِ وَالْعِشْرِينَ مِنْ رَجَبٍ وَاللهُ أَعْلَمُ. وَمِنَ النَّاس مَنْ يَزْعُمُ أَنَّ الْإِسْرَاءَ كَانَ أَوَّلَ لَيْلَةِ جُمْعَةٍ مِنْ شَهْرِ رَجَبٍ وَهِيَ لَيْلَةُ الرَّغَائِبِ الَّتِي أُحْدِثَتْ فِيهَا الصَّلَاةُ الْمَشْهُورَةُ وَلَا أَصْلَ لِذَلِكَ، وَاللهُ أَعْلَمُ.


✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ

فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

5 رجب المرجب1441ھ/ یکم مارچ 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے