65a854e0fbfe1600199c5c82

عجیب کرنسی - ایک زاویہ نگاہ

 عجیب کرنسی - ایک زاویہ نگاہ

===================

ایک ایسی کرنسی کا سوچتے ہیں، جس کے نئے نوٹ چھاپنا خود آپ کے اختیار میں ہو۔ جس کے حصول کا عام ذریعہ یہ ہو کہ آپ اس کو خود اپنے اختیار سے پیدا کریں۔ اور کرنسی کی قدر یا ویلیو کے تعین میں بھی آپ کافی حد تک خود مختار ہوں، اور وہ اس طرح کہ اس کی قدر میں اضافہ اور اس کا ڈی ویلیو ہونا بھی آپ پر منحصر ہو۔ اس کرنسی کی خاصیت یہ ہو کہ اس کو بڑھانے کے لیے اسی کرنسی کو خرچ نہ کرنا پڑتا ہو، البتہ ہر دولت کی طرح اس کی حفاظت ضروری ہو۔ اس کرنسی کے کھاتے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوں۔ اس کرنسی پر کسی قسم کا ٹیکس لاگو نہ ہوتا ہو۔ اس کرنسی کی قدر کا دارومدار وزن پر ہو، گنتی پر نہ ہو، اور وزن کا دارومدار خود آپ پر ہو۔ اس کرنسی کی نقل تیار کرنا ممکن نہ ہو، اس کرنسی سے حاصل شدہ اشیاء کی خاصیت یہ ہو کہ نہ وہ چوری ہوں، نہ کبھی پرانی یا خراب، نیز کیونکہ اس کی پیداوار بہت حد تک آپ کے اختیار میں ہے، لہذا اشیاء کے حصول کے لیے اس کرنسی کو ادھار لینے کے بجائے حسب ذوق و ضرورت آپ اس کو خود پیدا کرسکتے ہوں۔۔۔وغیرہ۔ 


جب بھی مال و دولت سے متعلق ہوشربا خبریں آتی ہیں، تو بہت سے لوگ تعجب، تمنا اور رشک کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ مثلاً ابھی ایک دو مہینے پہلے رونالڈو کی سعودیہ عرب کے فٹبال گروپ کے ساتھ کانٹریکٹ پرائس کو بہت سے لوگ رشک بھرے انداز میں شئیر کر رہے تھے, اور یہ حساب تک لگا رہے تھے کہ اس کی ایک گھنٹے کی آمدنی غالباً کوئی بائیس ہزار ڈالر کے قریب ہے۔ یہ سب دیکھ کر یوں ہی دل میں خیال آرہا تھا کہ یہ عارضی دنیا کی عارضی کرنسی ہے، جس کو ہم بہت قدرومنزلت سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک کرنسی اور بھی ہے۔۔۔

یعنی نیکیاں! یہ وہی کرنسی ہے جس کی ہمیں قدر نہیں، جس پر ہم رشک نہیں کرتے، جس کے ڈوبنے کا ہمیں کوئی غم نہیں ہوتا، جس کے حصول میں ہم کوشاں نظر نہیں آتے۔ حالانکہ اس کو کوئی بھی مسلمان لمحوں کے حساب سے ان گنت کما سکتا ہے! دنیاوی کرنسی سے فقیری عیب نہیں، لیکن اِس کرنسی کا غریب حقیقۃً قابلِ رحم فقیر ہے! یہ کرنسی اس ابدی جہاں میں چلنے والا واحد سکہ ہے، جہاں ہمارے اربوں کروڑوں کی رتّی برابر حیثیت نہیں۔


بس زاوئیہ نگاہ اور حقیقت کے ادراک کا فرق ہے۔ ورنہ یقیناً اگر اس دنیا میں یہ دنیاوی کرنسی اسی طرح ملنے لگے, تو سوچیں کون ہوگا جو سر کے بل چل کر اسے حاصل نہیں کرنا چاہے گا؟ 


اگر اوڑھنا بچھونا اور ساری زندگی کی بھاگ دوڑ، اور دن رات کی سوچوں کا محور صرف یہ دنیاوی دولت کمانا نہ ہو، اور فرائض و واجبات بھی پورے ہوتے ہوں، حقوق کی ادائیگی کی فکر بھی ہو، حق تلفیاں نہ ہوں، تو یہ مال و دولت یقیناً نعمت ہے۔ اور اپنے حال کو مزید اچھا بنانے کی فکر بھی درست ہے۔ مگر اُس جہاں کی تیاری بہت اہم ہے اور اُس کرنسی کا حصول اس عارضی کرنسی کے مقابلے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔۔۔کیونکہ وہ جہاں ابدی ہے اور وہاں پر چلنے والی کرنسی اور اس سے حاصل ہونے والی مراعات لازوال ہیں! 

==

محمد معاذ اشرف

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے