65a854e0fbfe1600199c5c82

 روزمرہ کے کچھ امور ایسے ہوتے ہیں جو ہم عادتا یا خاندانی مزاج کے زیر اثر اختیار کرتے ہیں یا انہی کے زیر اثر وہ امور انجام نہیں دیتے ۔

کچھ گھروں میں جوان لڑکے یا مرد بھی اپنے کام خود کرنے کے عادی ہوتے ہیں اپنے کپڑے خود استری کرنا ، کپڑے دھونا ، سالن گرم کر لینا ۔ گھر کے کاموں میں خواتین کی مدد کرنا ۔


ہمارے گھرانے میں ایسا نہیں ہوتا جو کہ ظاہر ہے کوئی اچھی بات نہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کاموں میں ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹاتے کبھی بکری کا دودھ دوہ لیا کبھی کوئی سالن بنانے میں کسی بیگم کا ساتھ دے دیا ۔۔


چند دن قبل میں نے بیگم کی فرمائش پر ان کیلئے انڈا بنایا پیاز چھیلا ، کاٹا ، ٹماٹر کاٹا برتن دھویا اور اہتمام سے نمک مرچ مسالہ کا خیال رکھتے ہوئے آملیٹ بنایا اور یہ سارا عمل ایک سرشاری اور خوشی سے لبریز ہوکر کیا ۔ میری کوشش تھی کہ میں ہر طرح سے ایک بہتر آملیٹ بنا سکوں ۔


اور جب میں آملیٹ بنا رہا تھا تب میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب بیگم یہ کھائے گی تعریف کرے گی اور آخری نوالے تک اس سے لطف لے گی تو مجھے کیسی خوشی ہوگی اور میں کیسا نہال ہوں گا ۔ 


خیال آیا کہ خواتین کیسے رسوئی گھر میں خود کو کھپاتی ہیں کہ کچھ اچھا بنائیں تو ان کو بھی یہ خیال آتا ہوگا کہ گھر میں سب رج بس کر کھائیں گے تو ان کو بھی کتنی خوشی ملتی ہوگی کہ جو بنایا وہ پسند کیا گیا وہ کھایا گیا اور میری محنت ٹھکانے لگی ۔


خیال کی رو تھی چل نکلی تو خدا اور اس کی کائنات اور دنیا کی طرف خیال گیا کہ کیسے خدا نے انسان کیلئے نعمتیں تخلیق کی ہیں سہانی صبحیں ہیں مستانی شام ہے نظارے ہیں میٹھے نغمیں ہیں اور رقص ہے پتوں کی لہلہاہٹ ہے انوکھی خوشبو اور رنگینیاں ہیں تو کیا جب ہم انسان ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو خدا خوش نہ ہوتا ہوگا ؟ 

کیا وہ منتظر نہیں ہوگا کہ بندہ کہے 

تھینک یو اللہ جی 💓


شاد مردانوی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے