65a854e0fbfe1600199c5c82

تبلیغی جماعت: صحابہ صفت کرداروں کی واپسی (2)

 


تبلیغی جماعت: صحابہ صفت کرداروں کی واپسی

 (2)


مولانا محمد فہیم الدین بجنوری 

استاذ دار العلوم دیوبند 

3 رمضان 1444ھ 26 مارچ 2023ء 


اسلام کا ساڑھے چودہ سو سالہ سفر نشیب وفراز سے عبارت ہے، اس کی پیش گوئی وہ خود کر گئے ہیں، ہر زوال وسقوط پر قیاس آرائیاں بھی ہوئیں؛ کیوں کہ علامات قیامت اور اس کی نزدیکی بھی انھوں نے خوب بیاں کی ہوئی ہے؛ لیکن وجود کے ہر معرکے میں وہ سرخ رو ہوتا رہا اور کائنات کی عمر سے متعلق قیافے تبدیل ہوتے رہے۔


آخری مایوسی تبلیغی جماعت نے دور کی، عوامی دین بیزاری پر علما سانسیں روکے، آہٹوں کا تجزیہ کر رہے تھے کہ میوات سے بادِ بہار دیوانہ وار اٹھی اور سارے عالم پر چھا گئی.


 مسجدیں آباد ہوئیں اور نئی بھی خوب بنیں، جہاں مسجدوں کی بسم اللہ میں رکاوٹ ہوئی، وہاں تبلیغی مشوروں نے کٹیے، دار ارقم اور مصلے بنا لیے، تبلیغی جماعت کو گود لینے، عروج پر پہنچانے اور آفاق میں متعارف کرانے والے گجراتیوں نے قیمتی اپارٹمنٹس کو نماز گاہوں کے تحفے دیے اور رشکِ ملائک بن کر فرشتوں کے اندازوں کو ایک بار پھر غلط ثابت کیا، تسبیح کے دانوں سے عالم کے چپے چپے کو معطر ومشک آگیں کیا اور اس بات کو یقینی بنادیا کہ "ہنوز دلی دور ہے" کہ اللہ اللہ کہنے والوں سے دنیا کو بھر کر ہم نے شرطِ قیامت کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔


 نو عمری میں، اپنے محلے میں، گھر کے سامنے کانوں میں پڑا ایک تبصرہ ہمیشہ تازہ رہتا ہے، ایک لڑکا سہ روزہ جماعت سے واپس آیا اور بہت نالاں تھا، پہلی بار گرفتار ہوا تھا، جماعتی سرگذشت اس پر گراں گزری تھی، اس ناخواندہ نوجوان نے عالمانہ تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ معراج کے موقع پر حضرت موسی علیہ السلام نے جو پچاس نمازیں معاف کرادی تھیں انھوں(گالی کے ساتھ ) نے سب دوبارہ بڑھالی ہیں، اس کا اشارہ تہجد، اوابین اور اشراق کی طرف تھا، جو تبلیغ والے اہتمام سے پڑھتے ہیں۔


میں 1998 میں، تعطیل کلاں کی طلبہ جماعت سے واپس آیا تو مفتی محمد اللہ صاحب ناظم شعبہ انٹرنیٹ دارالعلوم دیوبند ( اس وقت ان کو تکمیل ادب اور مجھے دورہ شروع کرنا تھا) نے تاثر طلب کیا تھا، ناچیز نے برجستہ عرض کیا کہ رقت طاری ہوتا ہے اور رونا نصیب ہوتا ہے۔


اس وقت اس راہ کی سرشاری میرے اعصاب پر غالب آگئی تھی، نئے سال میں از خود امدادی ٹکٹ بند کرایا اور قیمتا خوراک جاری کرائی اور تقوے کے استغراق میں سرپرستوں کو اطلاع بھی نہیں کی، اس وقت شعبہء افتا کے ایک طالب علم کو محلہ بڑ ضیاء الحق میں ٹی وی پر میچ دیکھتے ہوئے پایا تھا، تو اس کی نسبت اسلام کے درجے کی تعیین میں سرگرداں ہوا تھا، اسی زمانے میں بڑے خانوادے کے ایک جواں سال چشم و چراغ، چھوٹے تھیٹر نما چائے ہوٹلوں پر چھاپے مارتے تھے تو دل سے تحسین کی صدائیں برآمد ہوتی تھیں۔


(جاری)

پہلی قسط پڑھنے کے لیے ٹچ کیجیے:

تبلیغی جماعت: صحابہ صفت کرداروں کی واپسی (1)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے