65a854e0fbfe1600199c5c82

امام کا مقام اور اس کی ذمہ داریاں

 


❄️ امامت کی اہمیت اور امام کے اوصاف پر حضرت مفتی سعد نور صاحب قاسمی کے بیان سے ماخوذ چند اہم باتیں


18 شعبان 1444ھ بہ روز ہفتہ، جامعہ فاروقیہ بشیر العلوم کونچ روڈ اورئی میں، "حفاظ کرام کے لیے ایک روزہ تربیتی پروگرام" منعقد ہوا،

جس میں فقیہ الاحناف حضرت مفتی مجد القدوس خبیب رومی مدظلہم العالی، عالم باکمال حضرت مفتی اقبال احمد صاحب قاسمی اور فاضل نوجوان حضرت مفتی سعد نور صاحب قاسمی کے قیمتی بیانات ہوئے۔

حضرت مولانا سلطان احمد صاحب جامعی نے نظامت کی۔


🌻 حضرت مفتی سعد نور صاحب نے امامت کی اہمیت اور امام کی ذمہ داریوں پر گفتگو کی جن میں سے چند اہم باتیں پیش ہیں:


امامت کے لغوی معنی: اِمام اَمام سے بنا ہے اور اَمام کے معنی آگے کے ہیں گویا امام وہ ہے جو سب سے آگے ہو جس کے اندر آگے ہونے کی صلاحیت ہو

اصطلاح میں امام وہ ہے جو لوگوں کا پیشوا ہو،

فقہا کی اصطلاح میں امام وہ ہے جو لوگوں کو صحیح طریقے سے نماز پڑھا سکے۔


🌻 امامت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی صاحب نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب امام بنایا تو پہلے ان کو آزمایا 

وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی  اِبۡرٰہٖمَ  رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ  اِمَامًا  ؕ

ترجمہ: اور ( وہ وقت یاد کرو ) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا ، اور انہوں نے وہ ساری باتیں پوری کیں ، اللہ نے ( ان سے ) کہا :   میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔


(جب اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے آزمالیا اور یہ ثابت ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر بڑی سے بڑی قربانی کے لئے ہمیشہ تیار رہے، انہیں توحید کے عقیدے کی پاداش میں آگ میں ڈالا گیا۔ انہیں وطن چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا، انہیں اپنی  بیوی اور نوزائیدہ بچے کو مکہ کی خشک وادی میں تنہا چھوڑنے کا حکم ملا اور وہ بلاتأمل یہ ساری قربانیاں دینے چلے گئے، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں دُنیا بھر کی پیشوائی کا منصب دینے کا اعلان فرمایا۔ [ماخوذ آسان ترجمہ قرآن] ناقل مرتب)

اس سے امامت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


◾ایک ہے امامت صغریٰ وہ ہے مصلے کی امامت اور ایک ہے امامت کبریٰ وہ ہے خلیفۃ المسلمین مسلمانوں کا پیشوا ہو،

حضور صلی اللہ علیہ وسلم امام المصلین تھے امام المسلمین بھی تھے: مصلے کے بھی امام تھے اور پوری امت کے بھی امام تھے، پھر جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنی بیماری کے زمانے میں مصلے کا امام بنایا تو اشارہ کر دیا کہ یہی امامت کبریٰ کے حقدار ہوں گے خلیفہ بنیں گے۔

اس سے امامت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصلے کا امام پوری قوم کا امام ہوا کرتا تھا، یہ سلسلہ ایک زمانے تک چلتا رہا۔


◾روایت میں ہے کہ: اجعلوا أئمتكم خياركم

"تم امام ان کو بناؤ جو تم میں سب سے بہتر ہوں"

اس لیے امام کو علم میں عمل میں تقوے میں طہارت میں پاکیزگی وغیرہ اچھی صفات میں، سب سے بہتر ہونا چاہیے۔


◾ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الإمام ضامن کہ امام ذمہ دار ہے،

تو امام پر پوری قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔


🌻 اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:

وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ  اَئِمَّۃً  یَّہۡدُوۡنَ  بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا   ۟ ؕ  وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ ﴿۲۴﴾

ترجمہ: اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو ، جب انہوں نے صبر کیا ، ایسے پیشوا بنا دیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے ، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ۔


اس آیت سے معلوم ہوا کہ امام کو قوم کی ہدایت اور ان کے دین پر چلنے کی فکر ہونی چاہیے، 

اس کے لیے آیت سے معلوم ہوا کہ دو چیزوں کی ضرورت ہے: ایک تو صبر کی (صبر تین طرح کا ہوتا ہے: عبادات کے ادا کرنے میں صبر کرنا اور جَمنا، گناہوں سے بچنے میں صبر کرنا اور مصائب اور آزمائشوں پر صبر کرنا)

دوسری چیز ہے یقین، کہ دل میں اللہ کا خوف اور یقین ہو، یہی چیز ہے جس سے ذمہ داری نبھا سکیں گے اور اپنے اعمال اور قوم کی ہدایت کی فکر ہو سکے گی۔


◾ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد صرف نماز کے لیے نہ ہوتی تھی بلکہ اسلام کے دیگر اعمال کا بھی مرکز تھا: تعلیم وتعلم بھی تھا، جہاد کا نظام بھی وہیں سے بنتا تھا، دیگر بہت سی فکروں اور ان پر عمل کی ترتیب بھی بنتی تھی، گویا مسجد ہیڈ کوارٹر ہوا کرتی تھی،

اس لیے امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ محلے کے نادار لوگوں، بیواؤں کی لسٹ بنائے ان کی مدد کا انتظام کرے، بستی کے بے دین لوگوں کی فکر کرے، ان کو سکھائے۔

تو امام کی بڑی اہمیت ہے اس لیے ضروری ہے کہ امام کی خود کی زندگی صحیح ہو۔


🌻 اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ سے قرآن میں فرمایا:

فَاِذَا  فَرَغۡتَ فَانۡصَبۡ ۙ﴿۷﴾

ترجمہ: لہذا جب تم فارغ ہوجاؤ تو ( عبادت میں ) اپنے آپ کو تھکاؤ

(حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

ظاہر ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات تمام تر دِین ہی کے لئے تھی، تبلیغ ہو یا تعلیم، جہاد ہو یا حکمرانی، سارے کام ہی دین کے لئے ہونے کی وجہ سے بذاتِ خود عبادت کا درجہ رکھتے تھے، لیکن فرمایا جارہا ہے کہ جب ان کاموں سے فراغت ہو تو خالص عبادت مثلاً نفلی نمازوں اور زبانی ذکر وغیرہ میں اتنے لگئے کہ جسم تھکنے لگے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ دِین کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں اُن کو بھی کچھ وقت خالص نفلی عبادتوں کے لئے مخصوص کرنا چاہئے، اِسی سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے، اور اسی سے دُوسرے دِینی کاموں میں برکت پیدا ہوتی ہے۔

(آسان ترجمہ قرآن ناقل مرتب)



🌺 اس لیے امام کو اپنی اصلاح کی فکر ہونی چاہیے کہ اخلاق حسنہ زندگی میں آجائیں اخلاق رذیلہ (برے اخلاق) نکل جائیں، اللہ والوں سے تعلق قائم کریں، ان کی صحبت اختیار کریں، یہ شعبہ ہماری زندگیوں سے نکلتا جا رہا ہے۔


نوٹ: یہ حضرت مفتی سعد نور صاحب کے بیان سے صرف چند باتیں پیش کی گئی ہیں، جن میں ہر بات کو بعینہ نقل کرنے کا اہتمام نہ ہوسکا، اس لیے الفاظ، ترکیب اور ربط میں کمی بیشی یقیناً ہوگی، جس کو مرتب کی جانب منسوب کیا جائے۔

قرآن کی آیات کا ترجمہ حضرت مفتی تقی عثمانی کے آسان ترجمہ قرآن سے لیا گیا ہے۔ بعض جگہ اسی مذکورہ کتاب سے تفسیر بھی نقل کی گئی ہے جسے بریکٹ میں کر دیا ہے۔

مرتب: أ عالم قاسمی 

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. ماشاءاللہ آپکے اس پروگرام کا انتظار بھی تھا ۔۔۔۔یہ آپکی ترتیب دی ھوٸ چند باتیں کافی نفع بخش ہیں ۔۔۔۔اللہ پاک ھمیں بھی اور جملہ اٸمہ حضرات کو ان باتوں پر عمل کرتےھوۓ امت کی راہنماٸ کی توفیق نصیب فرماۓ ۔۔قمر عثمانی مظاھری ھردوٸ

    جواب دیںحذف کریں