تبلیغی جماعت: "صحابہ صفت" کرداروں کی واپسی
تحریر: مولانا محمد فہیم الدین بجنوری مدظلہم
استاذ دار العلوم دیوبند
25 شعبان 1443ھ 18 مارچ 2023ء
خواص کے سینوں میں دینِ محمدی کی لو کبھی دھیمی نہیں ہوئی، علم وصلاح کی مبارک نسبت کے حاملین نے ہمیشہ اس شمع کو فروزاں رکھا اور اس کی آبرو کی تابانی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔
معاملہ عامۃ المسلمین کا ہے، جو عہد بہ عہد اِدبار کی آندھیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، ایمان وعمل؛ ہر دو سطح پر ارتداد تک کی لہروں نے ان کو بارہا نرغے میں لیا ہے؛ حتی کہ ائمہء تجدید واصلاح، امت کی مسیحائی کے لیے میدان کار میں دیوانہ وار اترے۔
بر صغیر کی بڑی آبادی مسلمان ضرور ہوئی؛ لیکن اسلام کی بہار بس خواب ہی رہی، دین وشریعت سے ناواقفیت اور ناخواندگی کی دھند کبھی نہیں چَھٹی، اسلام کا مطلع کما حقہ صاف نہیں ہوا۔
پھر حکومتی زوال ومحرومی کا حادثہ پیش آیا اور انگریزوں کے رخصت پذیر نوے سالہ اقتدار اور دستک دہندہ نئی اکثریتی حکومت کی باز گشت نے اسلامیان ہند کو عملی واعتقادی؛ دونوں تناظر میں آخری کنارے پر دھکیل دیا۔
ارتداد، انحراف، بد عملی، بے عملی، بد نیتی، بے نیتی، غرض! نہ جانے کن کن سیلابوں اور طوفانوں کے سامنے سدِ سکندری تشکیل دینے کے لیے، دیوبند کا ایک قلندر، عرش گیر ہوا، رب بھی خاص شان میں تھا، اس نے مجددِ امت، غم گسارِ ملت، بانی تبلیغ حضرت مولانا الیاس علیہ الرحمہ کی مناجات کا جواب عرش بریں کے خزانوں سے دیا۔
دیوبند میں، حضرت شیخ الہند علیہ الرحمہ کو ان کی پیشانی میں صحابہ کا عکس نظر آتا تھا، یہ قیافہ بھی غضب کی تعبیر لایا؛ کیوں کہ ان کے طریق نے، کرہء ارض کو صحابہ کی اداؤں سے معمور کر دیا۔
آٹھ دس سال کی عمر رہی ہو گی کہ اپنے گھر میں حضرت أبو ایوب انصاری کا پرتو دیکھا، عم محترم فنا فی التبلیغ تھے، وہ امیر جماعت کیا تھے گاؤں کی تقدیر بھی تھے! ہماری بستی نے علما، قرا اور حفاظ کا انبوہِ عظیم پیدا کیا؛ لیکن بستی کی جو آنکھیں ان کو دیکھ چکی تھیں وہ بعد والوں سے کبھی سیر نہ ہوئیں؛ حالاں کہ وہ عالم تھے نہ حافظ، ان کی عرفیت حاجی عبد الرحیم تھی، بعض اوقات کسی مسئلے کے ضمن میں راقم سطور کو بھی یہ جواب ملا کہ تمہارے چچا حاجی جی نے تو اس کے خلاف بتایا تھا!
وہ آئے دن جماعتوں کی ضیافت ذاتی دسترخوان پر کرتے؛ یہ خبر ہمارے لیے برق بن کر گرتی تھی؛ کیوں کہ دستی پنکھا جھیلنے پر ہمیں ہی مامور کیا جاتا تھا، ابوایوب والا یہ استقبال گویا روزینہ داستان تھی۔
ان کے اخلاص کا عروج ملأ اعلی تک پہنچا، جب وہ اپنے دوش پر اس وقت کی معمولی بستی "روانہ شکار پور" میں عالمی اجتماع کرانے اور امیر تبلیغ ثالث حضرت جی مولانا انعام الحسن علیہ الرحمہ سمیت تمام اکابر کو لانے میں سرخ رو ہوئے، بستی کا ذرہ ذرہ نورانی غسل میں نہا اٹھا اور ناقابل بیان انوار وبرکات نے گاؤں بھر کو آغوش میں لے لیا۔
انھوں نے زندگی کا آخری جمعہ بھی مسجد میں ادا کیا، میں صغیر السن تھا؛ مگر بڑے بھائی کا ان کو پشت پر لاد کر مسجد تک لے جانا کل کی طرح تازہ ہے اور ابو ایوب انصاری کی وصیت یاد دلاتا ہے کہ مجھے باب قسطنطنیہ پر ہی دفن کیا جائے، فقہی کتابوں میں بہت بعد میں پڑھا کہ آخری درجے کے معذور شخص کو قبلہ رخ لٹا دیا جائے، اس طرح کہ پاؤں جانب قبلہ ہوں؛ مگر اس کی عملی صورت چچا کی معذوری میں، عہد طفولیت میں دیکھ چکا تھا۔
کھیلتے کھیلتے ان کے بستر پر سو جاتا تھا، ان کا سونا یاد نہیں، رات گئے سمت کعبہ مصروف تسبیح رہتے، مناجات بھی کرتے۔
وہ گریہ تو گاؤں والوں کو ہنوز یاد ہوگا، جب انھوں نے بابری مسجد انہدام کے مابعد والے نازک پس منظر میں، جمعہ کے امام کی سری دعا میں، مداخلت کی تھی اور "آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے" والی مناجات پڑھ کر حاضرین کو ہچکیوں میں ڈال دیا تھا، آج بھی تازہ ہے جب انھوں نے یہ شعر دہرایا:
خوار ہیں بد کار ہیں ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں
تو مسجد چیخوں سے گونج اٹھی تھی۔
(جاری)
0 تبصرے