65a854e0fbfe1600199c5c82

بنات کے مدارس کی اصلاح بہت ناگزیر ہے



 لڑکوں کے مدارس کے مقابلہ لڑکیوں کے مدارس کی اصلاح زیادہ ناگزیر ہے ۔ ان کا تعلیمی معیار نہایت گھٹیا ہے۔ جی ہاں غیر معیاری نہیں گھٹیا ہے ۔ وجہ صرف ایک ہے کہ ان کے پاس اچھی معلمات نہیں ہوتیں۔ اچھی معلمات میسر کہاں سے آئیں۔ وہ جتنی فیس ادا کر کے پڑھتی ہیں اتنی بھی تنخواہ نہیں پاتی ہیں ۔ لڑکیوں کے مدارس میں دوہرا استحصال ہے ۔ چندہ بھی آتا ہے اور فیس بھی لی جاتی ہے بلکہ کالجز جیسی فیس لی جاتی ہے اور سہولیات، انتظامات اور معیار تعلیم پر خاطر خواہ توجہ نہیں ہوتی ۔


 نو فارغات تدریس کے لیے رکھی جاتی ، دو ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے جی ہاں دو ہزار تین ہزار اس دور میں۔ ان کا بھی خالی وقت گزر جاتا ہے اور پھر شادی ہو جاتی ہے۔ پھر نئی معلمات آ جاتی ہیں، اس طرح تعلیمی معیار کبھی قائم نہیں ہو پاتا۔ بعض جگہ تو مدرسہ قائم کرنے والے کا پورا گھر بشمول مرد و خواتین سب مدرسہ میں ملازم ہوتے ہیں اور سب کی موٹی تنخواہیں مقرر ہوتی ہیں، رہ گئیں معلمات تو وہ بیچاری پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی ملازمہ ہوتی ہیں، دو تین ہزار انھیں مل جائے وہی غنیمت ہے۔ یہ صورت حال عمومی ہے ، بس کہیں کچھ کم کہیں کچھ زیادہ، لیکن ہے سب جگہ تقریبا یہی حال ۔


 دیہی علاقوں میں قائم لڑکیوں کے مدارس کی صورت حال اور زیادہ خراب و خستہ ہے ، وہاں سالانہ جلسہ کے نام پر بھی خاصی رقم طالبات سے وصول کی جاتی ہے ۔ اور رہ گیا معاملہ تربیت کا، تو وہ اس لیے بہت خراب ہے کہ خداترس، تجربہ کار اور عمر دراز معلمات کے بغیر ذہنی، فکری، شعوری، اخلاقی و دینی تربیت بڑی حد تک ناممکن ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مدرسہ کی فارغات اور دیگر لڑکیوں میں رسوم و رواج ، فیشن اور معاشرتی معاملات اور دینداری میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا بلکہ بسااوقات مدرسہ کی فارغات عام لڑکیوں سے دو ہاتھ آگے ہوتی ہیں، گھریلو کام کاج میں عدم دلچسپی کا مرض الگ لاحق ہو جاتا ہے اور کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی گھر کی دیگر خواتین پر احساس برتری ہو جاتا ہے جسکے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ یہ وہ موٹی موٹی باتیں ہیں جن پر توجہ دینا بہت ضروری ہے تاکہ ان مدارس کی افادیت باقی رہ سکے اور ان کا خیر معاشرے میں پھیل سکے ۔ استثناءات ہر جگہ ہوتے ہیں، یہاں بھی ممکن ہے کہ بعض مدرسے ان سب کمیوں اور کوتاہیوں سے یکسر پاک ہوں، اور بہت سی طالبات بھی ممکن ہے ایسی نکلتی ہوں جو اپنی نیکی و دینداری میں اپنے گھر خاندان کے لیے مثال بن جاتی ہوں۔

ط۔ ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے