65a854e0fbfe1600199c5c82

غیر مسلموں میں دعوتِ دین


 تحریر: مفتی عبید انور شاہ قیصر 


بہت سے اکابر و اساتذہ اور مجھ جیسے بعض اصاغر پر مشتمل ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک مباحثہ کی بنا پر یہ تحریر لکھنی پڑی مگر چونکہ ہمارے یہاں ایسی تحریر برداشت کرنے کا مزاج نہیں ہے، اس لیے گروپ میں اسے پوسٹ نہیں کیا جا سکا. گروپ کے اصول کا تقاضا بھی یہی تھا کہ بحث ایک حد سے آگے نہ بڑھے. پھر خیال آیا کہ جب تحریر لکھ دی ہے تو اسے ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ احباب کے ساتھ شییر کیا جائے.. یہ کوئی باقاعدہ تحریر نہیں، دل کا غبار ہے اس لیے مرتب مضمون کی توقع نہ کیجئے گا...


---------------------

---------------------


غیر مسلموں میں دعوتِ دین کا جو کام ڈاکٹر ذاکر نائیک نے شروع کیا تھا، اور اسے جس سطح تک بلند کیا، وہ تاریخی و انقلابی کارنامہ اور ایک قابلِ تعریف و تحسین و لائقِ تقلید عمل تھا. بے شک ڈاکٹر صاحب سے بعض غلطیاں ہوئیں، جن پر علماء کا مؤاخذه کرنا درست اور ضروری تھا. لیکن اس کے ساتھ ان سے بہت کچھ سیکھنا، ان کے ساتھ مل کر بہت کچھ کرنا اور ان کی ہمنوائی میں اس کام کو آگے بڑھانا زیادہ ضروری اور واجب تھا. اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے سینکڑوں ہزاروں نہیں، لاکھوں غیر مسلموں کو متاثر کیا اور ان میں سے ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا. در اصل انہوں نے ہمیں وہ بھولا ہوا کام یاد دلایا جو ہماری حقیقی دینی میراث اور ہمارے اکابر کا اختصاص تھا. یہ کام خاص نبوی مشن کا تسلسل تھا اور اس لحاظ سے ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے تھا، نیز اس کے ساتھ یہ فکرِ نانوتوی (اور فکرِ اکابر) کا لازمہ و تکملہ بھی تھا، اس جہت سے بھی یہ ہمارا اختصاصی پہلو ہونا چاہیے تھا. عرصۂ دراز سے ہمارے دینی و ملی اداروں بالخصوص قاسمی شناخت والوں نے اس دعوتی کام کو بالکل ترک کر دیا ہے. جو تھوڑا بہت عملی کام اور لٹریچر ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی کا ہے. ہمارے بڑوں کی جانب سے فکرِ نانوتوی کا ڈھنڈورا تو بڑے فخر کے ساتھ پیٹا جاتا ہے لیکن اس فکر کو محدود کرنے، معطل کرنے بلکہ قتل کرنے میں بھی بڑوں ہی کا بنیادی رول ہے. آج ملک بھر میں شہر در شہر، قریہ در قریہ، گلی در گلی قاسمی مدرسوں کا سیلاب آیا ہوا ہے، بلند و بالا عمارتیں بھی ہیں اور لاکھوں کروڑوں کا بجٹ بھی لیکن اس پہلو پر کسی ایک ادارے میں بھی کوئی نظام موجود نہیں ہے. مختلف سیاسی، ملکی، مادی و ذاتی اسباب اور مفادات کے زیر اثر مرکزی اداروں نے از خود اس کام کو شجرِ ممنوعہ بنا دیا ہے اور اس پہلو پر گفتگو کرنے کو بھی گناہ کے قریب مانا جاتا ہے. بے وقت یہ باتیں اس لیے زیر قلم آ رہی ہیں کہ ہم لوگوں کا نفاق، ڈھونگ، مداہنت، تملق، غفلت، اور حقائق کے انکار کی عادت کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتی. دیکھ کر افسوس، غم، تکلیف ،اذیت ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے، سنجیدہ سمجھے جانے والے دانشور اور علماء کی صف میں شامل لوگ اللہ اور اوم جیسے بیان پر بغلیں بجاتے، اسے انقلابی کارنامہ اور کوہِ صفا کی ندا بتاتے ہیں، لیکن اس نبوی کام کو بالکیہ ترک کر دینے، نظام اور منصوبہ سے اسے بے دخل کر دینے، اس پر عملی محنتوں کے فقدان پر خاموش رہتے ہیں، یہ سادگی ہے یا نفاق، تعیین مشکل ہے!!


کیا ہی خوب ہوتا کہ جس وقت ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کام شروع کیا تھا تو ہمیں اپنی اس کمی کا فوری احساس ہوا ہوتا. ہم از خود اپنے اداروں میں اس کام کا نصاب و نظام تیار کرتے یا ڈاکٹر صاحب کے مشن کا حصہ بنتے، کوئی ایسی ترتيب قائم ہوتی کہ ہمارے فضلا میں سے منتخب افراد اس دعوتی کام کی ٹریننگ لیتے، ملک کے کونے کونے میں یہ پیغام عام کیا جاتا اور اپنی غلطیوں کی اصلاح و تلافی کی کوشش کی جاتی. یہ سب تو ہوا ہی نہیں، ہم سے یہ بھی نہ ہو سکا تھا کہ جس وقت ڈاکٹر صاحب پر حکومت نے بے بنیاد الزام لگائے اور ان کی دعوتی کوششوں کہ پاداش میں انہیں جیل میں ڈالنے کی سازش کی، اس وقت ہم ان کی حمایت میں کھڑے ہوئے ہوتے اور ہر طرح ان کی امداد میں آگے رہتے. جب دل میں تڑپ ہوتی ہے، درد ہوتا ہے، ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے، دور اندیشی، بصیرت، فراست ہوتی ہے تو اس کا اظہار سلیقہ، تنظیم و ترتیب، اقدام، اور ہمہ گیر عملی کاوشوں سے ہوتا ہے، نہ کہ شور و ہنگامہ پر مبنی اسٹیج کے بیانات اور ان پر بے شرمی کے ساتھ تالیاں بجانے سے!!

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے

  1. جو بھڑاس بھی آپ نے نکال رہے ہیں اس میں عدم توازن ہے۔ علمی کام میں غیر مسلموں میں دعوت کو لے کر جماعت اسلامی کے کام سے تو تقابل درست ہے۔ڈاکٹر ذاکر نائیک سے نہیں
    البتہ ڈاکٹر صاحب کی خدمات قابل ستائش ہیں کسی بڑے ادارے کے لیے قابل تقلید نہیں اور شاہراہِ قرآن و سنت سب کا منہج ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. اپنی بات پر اصرار نہیں ہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے کچھ ذمہ دار حضرات غیر مسلموں اور ان کے مشرکانہ طور طریقوں سے مکمل برأت کا اظہار نہیں کر پائے ہیں۔ وہ شاید اس کو وطن دوستی کا پیمانہ سمجھتے ہیں۔ اس مزاج کے چلتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نایک جیسی دعوتی سرگرمیاں کیسے ممکن ہیں۔ وجہ اس کی یہ محسوس ہوتی ہے کہ سب کو ڈر لگتا ہے کہ گورنمنٹ ناراض نہ ہوجائے۔ اور گورنمنٹ کی ناراضی کا خوف اپنی سیاسی ناطاقتی کی وجہ سے ہے۔ ہماری بہت بڑی ناکامی اپنی خاص منہج کو محفوظ رکھتے ہوئے سیاسی طور پر اثر انداز نہ ہونا ہے۔ اس ایک ناکامی کے سبب بہت ساری بیماریاں پیدا ہوئی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں