65a854e0fbfe1600199c5c82

اظہارِ اختلاف کے راہنما اصول

 


اظہارِ اختلاف کے راہنما اصول

(از: حضرت تھانوی رحمہ اللہ) 

--------------------------


آج حضرت تھانوی کا ایک رسالہ(شق الغین، جو تکلمہ الاعتدال فی مراتب الرجال میں چھپا ہوا ہے) پڑھنے کی توفیق ہوئی، اسے پڑھ کر کتنی خوشی ہوئی اس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے، برسوں کے اشکالات حل ہوئے،اور حضرت کے لیے دل سے بے شمار دعائیں نکلیں۔

حضرت کی عبارت پیش کی جاتی ہے، اور اس سے جو بندے نے مستفاد کیا ہے اس کو بھی مختصر لفظوں میں بیان کیا جائے گا۔

عبارت یہ ہے:

"اول: بدون حجت شرعیہ کے کسی کی طرف،خصوصاً مومن کی طرف کسی قول یا فعل قبیح کا منسوب کرنا بہتان اور صریح گناہ ہے، اور خصوص در خصوص کسی امر مبطن مثلاً نیت وغیرہا پر حکم کرنا، حدیث: ھلا شققت قلبہ،( تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھ لیا؟ کہ اس نے دل سے کلمہ پڑھا ہے یا جان بچانے کے لیے، ناقل) اسی پر تنبیہ ہے۔

دوم: بعد ثبوت شرعیہ بھی بدون ضرورت شرعیہ اس کا تذکرہ کرنا، جبکہ منسوب الیہ کو نا گوار ہو، غیبت حرام اور معصیت ہے۔

سوم: البتہ ضرورت شرعیہ سے اس کی اجازت ہے، اور من جملہ ان ضرورتوں کے کسی مسلمان یا مسلمانوں کو ضرر سے بچانا بھی ہے، خواہ وہ ضرر دنیوی ہو یا دینی۔

چہارم: لیکن اس ضرورت مذکورہ سے بھی تذکرہ میں واجب ہے کہ لعن طعن و تمسخر و استہزا اور دشنام اور فحش الفاظ سے خصوصاً ایسے کلمات سے جو عرفاً کفار و فساق کے حق میں استعمال کیے جاتے ہیں، احتراز کیا جاوے، اگر دلیل شرعی سے کسی قول و فعل پر زد اور نکیر کرنا ہوتو حدود شرعیہ کے اندر علمی عبارات کا استعمال کرے، مثلاً: فلاں امر بدعت ہے، معصیت ہے، باطل ہے وامثلہا۔

(انتہی) (شق الغین از : حضرت تھانوی رحمہ اللہ ، بحوالہ: تکلمہ الاعتدال فی مراتب الرجال 62،63)

نوٹ: حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے رسالے کے شروع میں دلائل بیان کیے ہیں اور ان سے یہ اصول نکالے ہیں، یہاں اختصار کے پیش نظر دلائل کو چھوڑ دیا ہے۔

-----------------------

فائدہ: اس سے چند مسائل مستفاد ہوتے ہیں:


1. بغیر دلیل کے کسی کی طرف کوئی بری بات منسوب کرنا بہتان اور صریح گناہ ہے۔ جیسے: کسی فوٹو وغیرہ میں کوئی چیز دیکھ کر بلا تحقیق اس پر حکم لگا دینا کہ فلاں مبتدع ہے، فاسق ہے وغیرہ، اسی لیے اگر کسی فوٹو میں مرد و عورت زنا کرتے ہوئے دکھائے جائیں، تو بلا دوسری دلیل کے اسی پر حکم کا مدار رکھ کر حدِ زنا نہیں لگائی جا سکتی۔ یہی حکم اخبار میں لکھے ہوئے الفاظ کا بھی ہے، بلاتحقیق اس پر حکم کا مدار نہیں رکھا جا سکتا، ہو سکتا ہے جو الفاظ اخبار میں لکھے ہیں، وہ منسوب الیہ نے نہ کہے ہوں، یا کچھ گھٹا بڑھا دیا ہو، اس لیے یہ بہتان اور صریح گناہ ہوگا۔


2. کسی کی نیت پر کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا، مثلاً: فلاں تو ایجنٹ ہے، فلاں بکا ہوا ہے، کسی کے کہنے پر کام کر رہا ہے...... یہ پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔


3. اگر کوئی بات ثابت بھی ہو گئی تو بلا ضرورت کسی فرد یا ادارے کا تذکرہ کرنا غیبت حرام اور معصیت ہے، (یعنی اگر کسی کا نام لیے بغیر مسئلہ بالکل واضح وہ سکتا ہے، مثلاً : یہ بتلانا ہے کہ تصویر حرام ہے، اور جن گن من ناجائز ہے، چنانچہ کسی فرد یا ادارے کا نام لیے بغیر یہ آسانی سے حل ہو سکتے ہیں، تو نام لینا غیبت معصیت اور حرام ہوگا) 


4. اگر ضرورت ہو (یعنی نام لینا ضروری ہو، ورنہ مسئلہ پوری طرح واضح نہ ہو، یا اس کے شر سے امت محفوظ رکھنا ہو) تو نام لیا جا سکتا ہے، مثلاً کوئی شخص کسی فرقے کا بانی ہے، جیسے: غلام احمد قادیانی، پرویز چکڑالوی، شکیل بن حنیف وغیرہ ان کا نام لیا جائے گا، تاکہ امت ان کے شر سے محفوظ رہے۔

 البتہ اگر کوئی اہل سنت والجماعت میں سے ہے تو اس کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ اس کا نام لیے بغیر مسئلہ واضح ہو سکتا ہے، البتہ اس صورت میں بھی اگر شدید مجبوری ہو تو نام لیا جاسکتا ہے، لیکن عام طور سے ایسا نہیں ہوتا ہے۔


5. اس صورت میں بھی واجب اور ضروری ہے کہ کسی کا مذاق نہ اڑایا جائے، طعن و تشنیع نہ کی جائے، گالی اور فحش الفاظ نہ استعمال کیے جائیں، جیسے: خبیث، ملعون، حرامی، بکے ہوئے، حب مال و جاہ کے طالب، طاغوت وغیرہ وغیرہ، بلکہ علمی زبان کا استعمال کریں۔


اگر ہم اختلاف کے وقت ان باتوں کا خیال رکھ لیں، تو بہت سے جھگڑے اپنی موت مر جائیں گے، اور بہت سے فتنوں سے ہماری حفاظت ہو جائے گی۔ والسلام


محمد شہزاد نعمانی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے